آپ بھی کہیں گےکہ ہماری یادوں کی تان اگرکبھی فوجی چھاؤنی سے نکلتی ہےتوسیدھی یو ای ٹی کے لاہور پر جا کےٹوٹتی ہے۔ اس میں ہمارانہیں یونیورسٹی کےابتدائی رومانوی دور اور 95 الیکٹریکل کی یار دلدارجوڑی کاقصور ہے۔
میڈم کی برسی پر یادوں کےاس طاقچےپررکھاایک ٹیپ ریکارڈر ہے، سپورٹس کومپلیکس کےکارڈبورڈ کی دیواروں والےکیوبکلزمیں سےایک کابک ہےاور شاہد ہے۔ پکےرنگ اور اُجلی ہنسی والا شاہد جس سے دوستی اسی دن گانٹھی گئی تھی جس دن ہمارے یار نے اقبال بانو کی آواز میں فیض کو سنوایا تھا
دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی یے تری دلدار نظر کی شبنم
تو صاحب ٹیپ ریکارڈر وہی ہے مگر کیسٹ فرق ہے۔ سونک کی آڈیو کیسٹس کا دور دورہ تھا اور مارکیٹ میں
Sonic Mixes RAP-10 Golden Oldies
نیا نیا آیا تھا تو کچھ یوں تھا کہ دن طلوع ہوتے (صاحبو مُرشدی کا فرمان ہے کہ سورج تو اپنے وقت پر نکلتا غروب ہوتا ہے، دن تو تب طلوع ہوتا ہے جب آدمی جاگ اٹھے) سستاتے، باہر نکلتے، پینوراما، ریس کورس، فورٹریس کی پوہنڈی سے سیراب ہوتے، کبھی چیرنگ کراس اور کبھی اولڈ کیمپس اور این سی اے کی قربت میں عجائب گھر چوک میں جوتیاں چٹخاتے، رات گئے گلستان، شبستان کا شو ٹوٹنے پر پلٹتے اس ایک بہت محبوب کمرے کے ٹیپ ریکارڈر پر سائیڈ اے کے پہلے دو گانے ایک لامتناہی لُوپ میں بجا کرتے تھے۔ ہماری یادداشت میں میڈم کے دونوں گانے تہمینہ نے گائے تھے۔ ہماری سانسوں میں آج تک اور آواز دے کہاں ہے۔
وہیں کہیں ریپ کی اضافت سے ابھرتے ’آ رات جارہی ہےیوں، جیسے تاروں کی بارات جارہی ہے‘ کے سُر دل کے تاروں پر ایک کاری وار کرگئے۔ بہت بعد میں اس نغمے کو اس کی اصل میں سُنا تو یہ دل نور جہاں کے فن کا قدردان ٹھہرا۔
اب جہاں منٹو جیسےصاحبِ قلم نےتھوڑا کہتےبہت کچھ کہہ ڈالاہو وہاں ہمارےاپنےلفظ بےتوقیرہوئےجاتےہیں
سہگل کےبعدمیں نورجہاں کےگلےسےمتاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا ہی نوکیلا۔ میں نے سوچا اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پر کھڑی رہ سکتی ہے۔
ویڈیو لنک
اُسی طرح جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسے پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔
ہم نور جہاں کی عظمت کو انمول گھڑی میں سریندر کے سنگ گائے اس گانے سے ہی تولتےہیں۔ اورصاحبو کچھ توضرور ہےکہ پیا رنگ کالا کےبابا محمد یحییٰ خان بھی جب میڈم کو یادکرتے ہیں تو اسی پسندیدہ گانےکا ذکر کرتے ہیں۔
کراچی میں ُمیڈم نورجہاں والے‘ صوفی نوردین سے ملنے گئے تو ایک پرانی سہ منزلہ بلڈنگ کےنیچے ایک درمیانی دکان میں ایک خراد مشین اور ایک پرانے ٹیپ ریکارڈ کی تال میل میں میڈم کا وہ نغمہ سنا جو میرا بھی بہت پسندیدہ ہے
آوازدے کہاں ہے
قصور کی اللہ وسائی کو اپنے آخری سفر میں کراچی راس آگیا۔ ہمارے عروس البلاد کی رنگینیوں اور روشنیوں کے دامن میں ایک طرف گذری کے قبرستان میں جہاں آنگن ٹیڑھا کے سلیم ناصر ابدی نیند سورہے ہیں اسی قطار میں تھوڑا آگے لکڑی کے سائبان تلے ایک قبر ہماری میڈم نور جہاں کی ہے۔
کتبہ کراچی کے ریتلے پتھر کا ہے جس پر یہ دُعا کندہ ہے
اے میرے رب تو میرے لیے جنت میں اپنے قریب ہی گھر بنائیو
اس دوپہر میڈم کے لیے دُعا کو ہاتھ اُٹھائے تو لگا کہ یہاں بھی چار ’نو‘ اکٹھے ہوچلے ہیں۔ بے اختیار بابا محمد یحییٰ خان کے الفاظ یاد آئے پہلا ’نو‘نوشاد کا دوسرا ’نو‘ نورجہاں کا تیسرا ’نو‘ نوردین کا اور چوتھا ’نو‘ مجھ ایسے نوآموز نووارد نوخیز نوگرفتار نومشق اورجاہل جبلوٹے کا
آ رات جارہی ہے یوں
جیسے چاندنی کی بارات جارہی ہے
چلنے کو اب فلک سے تاروں کا کارواں ہے
ایسے میں توُ کہاں ہے
دنیا میری جواں ہے
آواز دے کہاں ہے