فرض کریں مرحوم سوویت یونین افغانستان پر چڑھائی نہ کرتا، افغان مزاحمت نہ کرتے، سی آئی اے کے ذریعے امریکہ مدد نہ کرتا، جنرل ضیاء الحق میدان میں نہ کودتا، اوجھڑی کیمپ کا حادثہ نہ ہوتا، جرنیل زادے کھرب پتی نہ بنتے!
فرض کریں امریکی ڈالروں کی مدد سے کئے گئے اس جہاد کے نتیجے میں ہمارا ملک افغان مہاجروں کیلئے دبئی نہ بنتا، ٹرانسپورٹ اور مزدوری پاکستانیوں کے ہاتھ سے نہ چھینی جاتی ہم کلاشنکوف اور ہیروئن سے محفوظ رہتے!
فرض کریں نائن الیون کا سانحہ (جس نے بھی کیا) نہ ہوتا، امریکہ طالبان کی حکومت ختم نہ کرتا۔ فرض کریں جنرل مشرف کو ٹیلی فون نہ آتا۔ وہ امریکہ کے سامنے رکوع میں نہ جاتا۔ فرض کریں بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، ملا عمر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، کوئی بھی نہ ہوتا۔ فرض کریں صوفی محمد نہ ہوتے، ملا فضل اللہ، مولوی شاہِ دوراں، مسلم خان، کسی کا بھی وجود نہ ہوتا!۔ فرض کریں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور دیگر’جہادی‘ تنظیمیں وجود میں نہ آتیں۔
… تو پھر کیا پاکستان میں آج امن وامان ہوتا؟ ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں رواں ہوتیں؟ جرائم کا نام و نشان نہ ہوتا؟ اور اکیلی عورت زیورات سے لدی پھندی… کراچی سے پیدل چل کر گلگت پہنچ جاتی اور اسے آنکھ اٹھا کر کوئی نہ دیکھتا؟
اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کو کینسر کا مرض لاحق ہوجائے اور ڈاکٹر اسے کہے کہ دس سال تک تم چلتے پھرتے رہو گے، اسکے بعد بستر پر لگ جاؤ گے،کچھ عرصہ یوں گزرجائیگا اور پھر وہ ہو کر ہے گا جو ہونا ہے! اس شخص کو ابھی چلتے پھرتے پانچ سال ہی ہوئے تھے۔ ابھی اس کا چلنے پھرنے کا پانچ سال کا عرصہ رہتاتھا۔ کہ اسے ٹریفک کا حادثہ پیش آ گیا۔ وہ شدید زخمی ہوگیا، اور چند ماہ سرجن کے رحم و کرم پر رہ کر چل بسا۔ اگر ٹریفک کا حادثہ پیش نہ آتا تو اس شخص کا انجام کیا ہونا تھا؟
اگر جنرل ضیاء الحق کی حکمت عملی کے نتیجے میں جہادی تنظیمیں وجود میں نہ آتیں اگر جنرل مشرف کی امریکہ پرستی کے نتیجے میں دہشت گردی ملک کے طول و عرض میں نہ پھیلتی تو پھر … کیا‘ سب اچھا ہوتا؟
ہم نے ان صفحات پر کئی بار لکھا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد… باسٹھ سال کے عرصہ میں… ہم نے وزیرستان کو اوردوسرے قبائلی علاقوں کو کیا دیا ہے؟ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ قبائلی علاقوں کے عوام دو ’’اداروں‘‘ کے رحم وکرم پر رہے ہیں (ہمیں نہیں معلوم یہاں ’اداروں‘ کا لفظ برمحل ہے یا نہیں) ایک پولیٹکل ایجنٹ (جو ان علاقوں میں ڈپٹی کمشنر کے قائم مقام تھے) اور دوسرے وہ ملک، خواتین، اور سردار… جو ان پولیٹینکل ایجنٹوں سے رابطے میں رہتے تھے۔ یہی اسمبلیوں میں جاتے تھے، یہی سینٹ میں جاتے تھے اور ابھی تو وہ خبر بھی پرانی نہیں ہوئی کہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے ارکان نے سینٹ کے ’کامیاب‘ امیدواروں سے فی کس کتنے کروڑ روپے لئے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تمام قومی اخبارات میں برملا شائع ہوئی اور کسی نے تردید نہیں کی۔ یہ صرف گذشتہ ایک سال کی خبر ہے۔ ہمیشہ یہی ہوتا رہا۔ کیا یہ وہ انصاف ہے جو قبائلی عوام کو دیا گیا؟ وہ ووٹ کے حق سے ہمیشہ محروم رہے۔ کیا کوئی ادارہ، کوئی سیاسی جماعت، کوئی فورم، کوئی تنظیم، اس ملک میں ایسی ہے جو حکومت سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مانگے۔-1 باسٹھ سال میں پولیٹکل ایجنٹوں کے ذریعے چند مخصوص مَلکوں اور خانوں کو کتنی رقم دی گئی؟ اور انہوں نے وہ رقم آگے کہاں استعمال کی؟-2 قبائلی علاقوں کی کتنی بستیوں میں پینے کا پانی نلکوں کے ذریعے مہیا کیا گیا۔ -3قبائلی علاقوں میں کتنے پرائمری سکول، کتنے مڈل اور کتنے ہائی سکول اور کالج، اس عرصہ میں، قائم کئے گئے۔-4 قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے کتنے سکول اور کتنے کالج بنائے گئے۔ -5باجوڑ، مہمند، میران شاہ، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں کتنی یونیورسٹیاں ، کتنے میڈیکل کالج، کتنی زرعی یونیورسٹیاں کھولی گئیں؟۔-6قبائلی علاقوں میں کتنے کارخانے قائم ہوئے، وفاقی حکومت کی ’وزارت صنعت‘ نے ان علاقوں میں کیاکچھ کیا؟ گھریلو (Cottage) انڈسٹری کتنی لگی؟ قرضے کتنے دئیے گئے؟ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو ان علاقوں کیلئے کیا کیا ترغیب دی گئی؟-7ان علاقوں میں 1948ء میں خواندگی کی شرح کیا تھی اور باسٹھ سال گزرنے کے بعد آج کیا ہے؟ -8 ریاست اور حکومت کے سربراہ اس عرصہ میں ان علاقوں میں کتنی بار بنفس نفیس گئے۔ -9 یہی سوالات ہیں جو سوات کے حوالے سے بھی پوچھے جانے چاہئیں اور متعلقہ صوبائی حکومت کو ان سوالوں کے جواب دینے چاہئیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیم کا مکمل ناپید ہونا، رشوت لینے والے پولیٹکل ایجنٹوں اور استحصال کرنیوالے گنتی کے چند قوانین، ملازمتوں کا فقدان، صنعت و حرفت مکمل طور پر ناپید، تو بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود نہ ہوتے تو کوئی اور ہوتا۔ امریکہ افغانستان میں نہ آتا، تو یہ نوجوان کسی او ر شکل میں ظلم کا جواب دیتے۔
ہر آن کہ تخم بدی کِشت و چشم نیکی داشت
دماغِ بیہْدہ پخت و خیالِ باطل بست
جس نے بھی برائی کاشت کی اور نیکی کی امید رکھی، اس احمق نے اپنے دماغ کو بے ہودہ ہی کھپایا اور غلط خیالوں میں مگن رہا!۔
ہم میں سے ہر ایک نے بچپن میں ایک شعر پڑھا تھا۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے
ہاں! یہ درست ہے کہ امریکہ اور بھارت ہمارے دشمن ہیں لیکن اگر ہم مضبوط ہوتے تو کسی کی جرات ہی نہیں کہ ہم پر چڑھ دوڑے۔ ایک مسلمان سے ڈرنے والے سو ہندوؤں کو آج معلوم ہے کہ وہ ایک مسلمان اپنے ہی طاقت ور طبقوں کا غلام بنا ہوا ہو۔ اسکے پاس آٹا ہے نہ گھی، بجلی ہے نہ گیس، سکولوں میں اسکے بچوں کو داخلہ نہیں ملتا، پڑھ جائیں تو روزگار حکمران پارٹی کے قبضے میں ہے حکومت اس پر وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں ہر روز نئے سوٹ پہنتے ہوئے شرم تک نہیں آتی۔ میڈیا ’آزاد‘ ہے لیکن ٹیلی ویژن چینلوں پر آ کر ہاتھ نچا نچا کر فلسفے جھاڑنے والوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ حضور! آپکے اثاثے کیا ہیں؟ اور کہاں سے آئے ہیں؟ لگتا ہے حالی نے میڈیا ہی کیلئے کہا تھا…؎
خوشامد میں ہم کو وہ قدرت ہے حاصل
کہ انساں کو کرتے ہیں ہر طرح مائل
کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل
کہیں ہوشیاروں کو کرتے ہیں غافل
کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا
یونہی سینکڑوں کو اسامی بنایا
http://columns.izharulhaq.net/2009_10_01_archive.html
“