کشمیریوں کے لیے رات کی تاریکیاں مزید گہری ہونے والی ہیں۔۔اور رات مزید طویل ہونے والی ہے۔
اب کشمیریوں کو اپنی تاریخ کے بدترین چیلنج یعنی ڈیموگرافک چینج کا سامنا کرنا ہو گا۔۔۔مقبوضہ ویسٹ بنک کی طرح انکے پڑوس میں حکومتی سرپرستی اور حفاظت میں ایک ہندو فیملی بسائی جائیگی۔۔اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
پاکستان کی ایماء پر انیس سو نواسی میں مسلح جدوجہد شاید انکی سب سے بڑی غلطی ہے جس نے انکو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔۔۔اس جدوجہد نے سات لاکھ فوج بھی وادی میں بٹھا دی۔۔اور اسپیشل اسٹیٹس بھی چھن گیا۔۔ڈیڑھ لاکھ شہادتیں، عصت دری، اسکے علاوہ ہیں ۔
اس جدوجہد سے پہلے نہ تو لاکھوں کی تعداد میں فوج وہاں موجود تھی۔۔آرٹیکل تین سو ستر کے تحت نہ کوئی وہاں زمین خرید سکتا تھا۔۔نہ ہی کوئی ہندوستانی وہاں شادی کر سکتا تھا۔۔۔سب سے اہم بات اب بھی کشمیر میں چھیانوے فیصد مسلمان موجود ہیں۔۔مطلب اگر آرٹیکل انٹیکٹ رہتا تو انکو آئندہ دہائیوں تک کسی ڈیمو گرافک چینج کا خطرہ درپیش نہیں تھا۔۔۔دہلی سے کنٹرولڈ ہی سہی لیکن کشمیر پر ہمیشہ مقامی افراد نے ہی حکومت کی۔۔۔سول سرونٹس ہمیشہ لوکلز تھے۔۔۔اب اس میں بھی ترمیم کر دی گئی ہے جس کے تحت ابھی ہندوستانیوں کو بھی سول سروس میں پوزیشنز الاٹ کی جائینگی۔
کشمیریوں نے ہر طرف سے کھویا ہے۔۔۔آج کرفیو کو ایک سال اور تین ماہ ہو چکے نہ تو اسلام آباد کو کوئی مسئلہ ہے اور نہ دہلی کو۔۔۔پِس کشمیری رہے ہیں۔۔
اب یا تو کشمیری آل آؤٹ جدوجہد پر نکل پڑیں۔۔کسی کی مدد کے بغیر یا کچھ لو اور دو کے تحت انڈیا سے مذاکرات کر کے اپنا سٹیٹس بحال کروا کے انڈیا کے باقی ماندہ مسلمانوں کی طرح اپنی زندگی گُزار دیں۔۔ اس سے انکی آئندہ نسلیں اس دہشت، ظُلم سے بچ جائینگی ۔
لیکن اس طرف سے کوئی اُمید مت رکھیں۔۔یہاں معاملات ایک سال بعد یو این سپیچ(وہ بھی انٹرنل آڈینس کو مطمئن کرنے کے لیے )اور گانے تک محدود ہو چُکی ہے۔
ہم نے تزویراتی گہرائی کے لیے انکا بدترین استحصال کر کے انکو ہندوستان سے آسرے پر چھوڑ دیا ہے۔۔اسوقت جب پورے ہندوستان کے دل میں بھی انکے لئے نفرت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔۔۔۔کبھی خوف آتا ہے کہ کہیں یہ سزا من الحیث القوم ہم سب پر مسلط نہ ہو جائے۔
کشمیریوں کو اس بند گلی سے خُود ہی نکلنا ہے۔