آج – 31 / اگست / 1919
ترقی پسند فکر کے حامل ادیبوں اور شاعروں میں شامل، افسانہ نگار اور معروف شاعر " کشمیری لال ذاکرؔ" کی برسی…
کشمیری لال ذاکرؔ 7 اپریل 1919 کو بیگابنیان گجرات پاکستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ریاست پونچھ اور سری نگر کے اسکولوں میں حاصل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا۔ ذاکر ترقی پسند فکر کے حامل ادیبوں اور شاعروں میں ہیں ، انہوں نے اپنی شاعری افسانوں اور ناولوں کے ذریعے ملک کے المناک سیاسی، تہذیبی اور سماجی مسائل کے کے خلاف ایک مستقل جہاد کیا۔ ذاکر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز تو شاعری سے کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ فکشن کی طرف آگئے۔ پھر منٹو، کرشن چندر،اشک،بھیسم ساہنی،اور بیدی کی رفاقت نے ان کی کہانی کہنے اور ملکی مسائل پر ایک ذمے دار تخلیق کار کے نقطۂ نظر سے سوچنے میں ان کی مدد کی۔ تقسیم کے بعد ملک بھر میں بھڑک اٹھنے والے فسادات اور کشمیر کی المناک صورتحال نے انہیں بہت متأثر کیا۔ ان حالات سے پیدا ہونے والا کرب ان کی کہانیوں کی بنت کا اہم حصہ ہے۔ ان کی کتابیں ’جب کشمیر جل رہاتھا‘ ’انگھوٹھے کا نشان‘ ’اداس شام کے آخری لمحے‘ ’خون پھر خون ہے‘ ’ایک لڑکی بھٹکی ہوئی‘ وغیرہ اسی تخلیقی کرب کا اظہار ہیں۔
کشمیری لال ذاکر کی مختلف اصناف پر مشتمل سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ ذاکر کو کئی اہم ترین اعزازات سے بھی نوازا گیا۔2016 میں انتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر کشمیری لال ذاکرؔ کی برسی پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
شبنم میں چاندنی میں گلابوں میں آئے گا
اب تیرا ذکر ساری کتابوں میں آئے گا
جو لمحہ کھو گیا ہے اسے پھر نہ ڈھونڈھنا
جو چاند ڈھل چکا ہے وہ خوابوں میں آئے گا
دکھ دے رہی ہیں اس کی یہ برفیلی عادتیں
پگھلے گا ایک دن تو شرابوں میں آئے گا
پہچان بھی سکو گے نہیں اپنے نام کو
آئے گا بھی تو اتنے حجابوں میں آئے گا
جب تیرا نام حسن کی تاریخ بن گیا
پھر میرا ذکر دل کی کتابوں میں آئے گا
▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔
یہ اور بات کہ آگے ہوا کے رکھے ہیں
چراغ رکھے ہیں جتنے جلا کے رکھے ہیں
نظر اٹھا کے انہیں ایک بار دیکھ تو لو
ستارے پلکوں پہ ہم نے سجا کے رکھے ہیں
کریں گے آج کی شب کیا یہ سوچنا ہوگا
تمام کام تو کل پر اٹھا کے رکھے ہیں
کسی بھی شخص کو اب ایک نام یاد نہیں
وہ نام سب نے جو مل کر خدا کے رکھے ہیں
انہیں فسانے کہو دل کی داستانیں کہو
یہ آئینے ہیں جو کب سے سجا کے رکھے ہیں
خلوص درد محبت وفا رواداری
یہ نام ہم نے کسی آشنا کے رکھے ہیں
تمہارے در کے سوالی بنیں تو کیسے بنیں
تمہارے در پہ تو کانٹے انا کے رکھے ہیں
کشمیری لال ذاکرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ