::: اردو، ہندی کے افسانہ، ناول، خاکہ نویس اور ڈرامہ نگار ، شاعر ، مترجم اور سفرنامہ نویس : کشمیری لال ذاکر :::
کشمیری لال زاکر ۱۷ اپریل ۱۹۱۹ میں ضلع بیگا نیا ، گجرات، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ، ان کو " فخر ہریانہ" بھی کہا جاتا ھے۔ ایم اے انگریزی تھے۔ تا حیات پنجاب کے محکمہ تعلیم سے منسلک رہے۔ ۱۹۴۱ میں ان کی پہلی غزل لاہور کے ادبی جریدے " ادبی دینا" میں چھپی۔۔ان کا کہنا تھا ان کے ادبی کام کی ابتدا شاعری میں بھی کی اور نثر میں بھی۔ ۔۔۔ دونوں کی ابتدا اس وقت ہوئی جب وہ پرنس آف ویلز کالج جمون میں طالب علم تھے۔ ۔ کالج کے ادبی میگزیں " توی" کے مدیر رہے۔ وہ ایک عرصے تک ہریانہ اردو اکادمی میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ان پر کشمیر،حیددآباد، عثمانیہ اور پنجاب کی جامعات سے محقیقین نے پانچ/۵ ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھے۔ دور روشن، ہریانہ اور دہلی سے ان کی کہانیاں، گفتگو، شاعری اور مصاحبے بھی نشر ہوتے رہے۔ سنیل دت کی ہدایت کاری میں بنے والی فلم "مں جت جاگ جت" کے ادبی مشیر رہے۔ ۹۷ سال کی عمر میں ۳۱ اگست بروز بدہ 2016 ۔۔۔ پیرانہ سالی اور متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوکر گورنمنٹ میڈیکل کالج ہسپتال سیکٹر تین/۳ چند دیگر ، بھارت ،میں اپنی آخری سانسیں لیں۔ انھوں نے ۲۹ ناولین لکھیں۔ ان کی چند مشہور تصانیف کے نام " میری شناخت تم ہو" ، "آدھے چاند کی رات" ، ہارے ہوئے لشکر کا آخری سپاہی"، اس صدی کا آخری گرہن"، بنا چھت گھر" اور " خوابوں کے قافلے" ہیں۔… ان کا ایک مقولہ بہت مشہور ہے ۔۔۔ " میرے بدنام افسانے بہت ہیں، مگر ان کے دیوانے بہت ہیں" ۔۔۔ان کی کہانیوں میں ہندوستان کے بٹ اور المناک اور خونی فسادات اور نقل مکانی کی اذیت ناک اور ہولناک اور تجربات کو اپنی تحریروں میں خسوصی موضوع بنایا ہے۔ جس میں سیاست اور نفرت کے ہاتھوں سے ہزارون انسانون کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔اور جو بے گھر اور برباد بھی ہو گئے۔اس حسا س اور اور وسیع موضوع کو کشمیری لال زاکر نے بڑے اعتدال اور رجائیت کے ساتھ لکھا ہے ۔۔۔ کشمیری لال زاکر نے اپنے اپک مصاحبے میں مدیر " شاعر" افتخار امام صدیقی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا ۔ " آپ پاکستان سے ہنوستان کی ہجرت کا قصہ نہ چھیڑئیے یہ بے حد اندوہناک تھا اور میں بہت دنوں کے بعد اس کی تفصیل اپنے ناول " کرما والی ماں" میں دے سکا۔۔۔۔۔ انکی بشتر ناولوں میں دیہات کیی منظر کشی کی گئ ہے۔مگر انھوں نے حضروی زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے ناول "" کرماں والی" اور ڈوبتے سورج کی کتھا ۔۔۔ تقسیم ہند کی ازیت ناکیاں چھپی ہیں۔ جس میں تبدیل ہوتا ہوا پنجاب کا معاشرہ نظر اتا ہے۔جس میں مثھبی ، نسلی اور علاقَائی تعصبات سے اوپر اٹھ کر ایک مثبت اور رجائی پیغام دیا ہے۔ ان کے یہاں تہذیبی اقدار کو اولیت حاصل ہے۔لیکن یہ تمام اوصاف محض رومانی جذباتیت نہیں ہے بلکہ اس کا سرچشمہ ایک عمیق حقیقت پسندی ہے۔ جس میں ایک " ادرشی رویہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان کا ناقلٹ" سیندو کی راکھ" ایک تاظراتی ناولٹ ہے۔ جس میں ناول نگار نے اپنے قلبی جذبات اور احساسات کو اپنے مخصوص انداز میں ہیش کیا ہے۔ یہ اصل میں ان کے تاثرات کی بیانیہ تکنیک ہے۔ جو ان کی یادوں سے اکز کی گئی ہے۔ جس میں ان کی بیوی کے انتقال کے بعد ان کے غم کا گہرا اظہار ہے۔ جس میں انھوں نے اپنی مرھومہ بیوی کے لکھے ہوئے روزنامچے { ڈائریاں } سے تراشے بھی پیش کئے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ہندوستان کی عورتوں کے جسمانی اور جذبات استحصال کو اپنی ناول اور افسانوں میں جگہ دی ہیں جس میں بہن ،بیٹی، بہو اور ماں کی ازیت ناک تصویریں ہیں۔ان کے افسانے " دوسرا مرد، لفنگی، ڈبل شفٹ، ایک ڈری ہوئی لڑکی،سنتوش کمارمالا بار کی شہزادی عوتون پر ہی لکھی گئی ہیں۔ ان کی تمام تحریروں مین زندہ، متحرک رجائی لہجہ محص لفظ کا کرشمہ نہیں ہے کزمیری لال ذاکر کو احساس تھا کی اس دنیا ی بہارین اس کا فروغ مایوسی کا نہیں امیدوں اور حوصلوں کار ہیں منت ہے۔ اور یہی امید پروری ان کی اکثر ناولوں اور افسانوں میں بھی توانائی اور دل کشی کے اچھوتے اوصاف و عناصر پیدا کرتی ہے ۔ ان کے فکش مین حقیقی کہانیون میں واقعات جو اکثر اخبارات کی زینیت بن کر عام لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہو جاتے ہیں ۔مگر کشمیری لال زاکر کا تخلقی حسیات انھیں ایک کہانی کا روپ دے دیتا ہے۔ ان کے متعلق جوگندر پال کا کہنا ہے" نامعلوم وہ کب تک اپنی پریشانی میں منزل ی تلاش مین منزل سے آگے ہی بھٹکتے رہے مگر اسی اثنا میں یہ ہوا کی جو لوگ ان کی منزل پر ان کے استقبال کے لیے پھولوں کا ہار لئے کھڑے تھے۔ وہ بھی فکر مند ہونے لگے کہ آنحضرت ابھی تک کیوں نہیں پنچیے۔۔۔۔ رتن سنگھ نے کشمیری لال زاکر کے متعلق کہتے ہیں" کشمیری لال ذاکر کی کہانیون کو زرا درمیان سے پڑھا جائے تو قاری جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کی ان کے یہان ترقی پسندی کی گھں گرج ہے۔اور نہ ہی فن برائے فن میں یقین رکھنے والون کی سی اوپر چمک دمک ۔۔ ان کا فن نہ جدیدیت سے عبارت ہے جس کے ٹیٹرے میڑھے الجھے ہوئے راستے اپنے آپ کو تلاش کرتے ہوئے اپنے آپ میں گم ہو جاتے ہیں"۔۔۔۔کشمیری لال زاکر کا فکشن انسانیت سے متعلق ہیں۔ جو ہندوستانی پنجاب میں اردو زبان وادب کی نئی حسّت اور توانایءوں کا نام ہے وہ انسان کو سیکولر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اسی میں ان کو انسان کی نجات نظر آتی ہے۔ جو انسانی کہانی کے کردار ہیں۔ یہ کرداد لایعنی نہیں ہم جیسا ہی ہےجو زندگی کے تلخ و شیریں لمحات کی لذّت سے آشناہے۔ جو زندگی کے تلخ اور شیرین لمحوں کی لذت سے آشنا ہونے کی گواہی دیتا ہے۔
****
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔