1947 میں کشمیر کے دولخت ہوتے ہی کشمیری زبان کے پہلے ڈرامے لکھے گئے جو خالصتاً سیاسی نوعیت کے تھے۔ بھارت کے ساتھ متنازع الحاق کے بعد کسی ممکنہ بغاوت کے خلاف احتیاطی تدابیر کے طور حکومت نے کشمیری لکھاریوں جن میں پریم ناتھ پردیسی، سوم ناتھ زتشی اور امیش کول شامل تھے، سے مختصر ڈرامے لکھوائے جو وادی کے طول و عرض میں دکھائے گئے۔ ان میں اکثر کا نفس مضمون پاکستان، دو قومی نظریے اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف تھا، جس کے مقابلے میں بھارت کے سیکولر ازم کو بہتر دکھایا گیا جس میں کشمیر کو تعمیر و ترقی کے نئے اور تاریخ ساز مواقع میسر ہوں گے۔ ڈراموں کا یہ سلسلہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے توسط سے جاری رہا جنہیں اب وقت کی مناسبت سے بالی وڈ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے7 فروری کو ایک نئی فلم ’شکارا‘ ریلیز ہوئی جس میں1990 میں آزادی پسند عسکری جدوجہد کے شروع ہونے کے فوراً بعد ڈیڑھ لاکھ پنڈتوں کی غالب اکثریت کے وادی سے اخراج کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’شکارا‘ میں مذہبی شدت پسندی اور پاکستان کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے ایک الگ وطن کے حصول کے جذبے کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ میں نے1987 میں پہلا اسٹیج ڈرامہ دیکھا تھا جو کشمیر کے معروف شاعر، ڈرامہ نویس اور اداکار بشیر دادا نے تحریر کیا تھا۔ اس کے کردار اور ان کی اداکاری اس قدر متاثر کن تھی کہ لوگ کئی مہینے تک اس کے سحر میں کھوئے رہے۔ بعد ازاں حالات نے پلٹا کھایا صرف سیاسی اسٹیج ہی باقی رہ گیا، جہاں نئے نئے ڈرامہ نگار اور اداکار نت نئے کرداروں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔ میرے جوانی کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے دنیا ’عالمی گاؤں‘ بن چکی تھی، اس لئے ان ڈراموں کے اسکرپٹ اور ڈائریکٹرز کشمیر سے باہر کے تھے یہاں تک کہ کرداروں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی غیر کشمیری تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں کشمیریوں کا کردار صرف ایک تماشائی کی حد تک محدود ہوگیا۔ اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ جاندار ڈرامے لکھنے والے بشیر دادا جو بعد میں میرے دوست بن گئے، بھی آخرکار سیاست کے اسٹیج کے ایک کردار بن گئے۔ اگرچہ وہ جلد ہی توبہ کرکے پلٹے مگر ان کا اس طرح رخ بدلنا ہمارے تعلقات پر اس قدر گراں گزرا کہ وہ جانبر نہ ہو سکے۔
اس طرح کا ایک اور کردار یاسر کشمیری تھے جو1990 کی ابتدا میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ ہوکر پاکستان آگئے اور یہاں ایک دو سال رہ کر جماعت کے ترجمان بھی رہے۔ پھر آزادی سے وہ اکتا گئے کہ دوبارہ اپنا اصلی نام بشیر بھوانی اختیار کیا، اصلی ڈراموں کی طرف راغب ہوگئے اور اپنا ایک تھیٹر گروپ بنایا جس کو اطلاعات کے مطابق گزشتہ ایک دہائی سے حکومتِ ہند کی جانب سے کافی امداد ملتی رہی۔ بھوانی صاحب نے ’حیدر‘ اور ’بجرنگی بھائی جان‘ جیسی فلموں میں مختصر مگر جاندار کردار نبھاکر اپنی اداکاری کا لوہا بھی منوایا۔
گزشتہ سال پانچ اگست کے المیے کے بعد کچھ لوگ کشمیر میں ہونے والے پاکستان کے سرکاری اقدامات جن میں سردست بیانات ہی ہیں، کو بھی ڈرامہ قرار دیتے ہیں جو سراسر زیادتی ہے۔ چونکہ یہاں سرکاری طور پر تحریر و تقریر کی کھلی آزادی ہے اس لئے جس کے جی میں جو آئے، وہ کہہ دیتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ باتیں بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں یا نہیں، اس طرح کے بیانیے سے ڈرامہ نویسوں اور انڈسٹری سے وابستہ ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز اور اداکاروں کی توہین ہوتی ہے۔ میری ناقص رائے میں کشمیر کے موجودہ المیے سے اگر کوئی مثبت امید برآمد ہوئی ہے تو وہ یہی ڈرامے ہیں جو آج کل ہر جگہ دھڑا دھڑا دکھائے جا رہے ہیں۔ ان سے مظلوم کشمیریوں کے تئیں کچھ حق ادائیگی کے ساتھ لوگوں کو تفریح کا سامان بھی فراہم ہوتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے الحمرا آرٹس کونسل لاہور کی طرف سے ’رنگ لائے گا لہو‘ نامی ڈرامہ دکھایا گیا جو کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے پیش کیا گیا۔ اس سے پہلے گزشتہ ستمبر میں بھی الحمرا نے ایک ڈرامہ ’اسیر آزادی‘ کی نمائش کی تھی۔ جس میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس میں بھارتی عقوبت خانے کے منظر میں زیر اذیت تین کشمیری نوجوانوں کے کپڑے ایک ہی طرح کے دکھائے گئے تھے۔ اس سال جنوری کے وسط میں ریڈیو پاکستان پر ’کشمیر جل رہا ہے‘ کے نام سے ایک ڈرامہ نشر ہوا جو منتظمین کے مطابق بھارتی جارحیت اور مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی حکومتی پالیسی کا حصہ تھا۔ کشمیر میں ہونے والی مسلسل قتل و غارت گری کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ اب چوٹی کی اداکارہ ماہرہ خان نے بھی فلموں اور ڈراموں کو کشمیر سے منسلک کرنے کی صلاح دی ہے۔ اس سے کشمیر کے نام پر ڈراموں کی ایک مستقل اور بڑی انڈسٹری قائم ہو سکتی ہے جس سے کم ازکم کچھ لوگوں کے مستقل روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔