ایک بدقسمت کشمیری لڑکی کی روداد جو شادی کے تیسرے دن ہی بیوہ ہوگئی تھی۔
اُن دنوں میری پوسٹنگ ضلع ایسٹ میں تھی، میں نے تحریری طور سارے پولیس کو افسران کو حُکم کر رکھا تھا کہ کسی بھی کیس میں عورتوں اور بچوں کی گرفتاری میری تحریری اجازت نامے کے بغیر نہیں ہوگی۔
اگر کسی عورت کی گرفتاری ضروری ہوتی تھی تو میرے افسر خود سامنے نہیں آتے تھے کیونکہ گرفتاری کیلئے مجھے مطمعین کرنے میں اُن کو دقّت ہوتی تھی،اسلئے انھوں نے آسان راستہ یہ نکال لیا تھا کہ کیس کے مدعی کی رہنمائی کرتے تھے کہ میرے پاس کیس کے تفتیشی افسر کی شکایت لے کر آئیں کہ تفتیشی افسر گرفتاری یا تعاون نہیں کررہا۔
واقع یہ تھا کہ کچھ دن پہلے ایک نو بہاتا جوڑا گلشن اقبال کے ایک شاپنگ مال میں آیا، شوہر نے نئے نویلی دلھن کو مال کے گیٹ پر اتارا اور کہا کہ آپ اندر جاؤ میں کار پارکنگ میں کھڑی کرکے آرہا ہوں، لڑکی مال کے اندر چلی گئی، مال کے اندر لڑکی شوہر کا انتظار کرتی رہی جب شوہر مال میں نہیں آیا تو لڑکی نے شوہر کو فون کیا تو شوہر کا فون بند جارہا تھا بلآخر لڑکی مال سے نکل کر پارکنگ میں چلی گئی مگر وہاں بھی اُس کو شوہر کی کار نظر نہیں آئی، تنگ آکر لڑکی نے اپنے سسرال فون کیا اور سارا ماجرا بتایا، سسرال والے بھی پریشانی میں مال پہنچ گئے مگر لڑکا جو ایک بینک میں وائس پریڈنٹ تھا اُس کا نام وہ نشان نہیں تھا۔
گھر والے شام تک لڑکے کو فون کرتے رہے مگر فون مسلسل بند جا رہا تھا، شام کو لڑکے کے والد نے تھانے پر لڑکے کی گمشدگی کی رپٹ کرادی، لڑکے کے گھر والوں نے رات جاگتے گُذار دی دوسرے دن ناظم آباد کے علائقے سے لڑکے کی کار میں سے اُس کی تشدد زدہ لاش مل گئ اور اسطرح لڑکی شادی کے تیسرے دن ہی بیوہ ہو گئی تھی۔
شاید قاتل گھر سے لڑکے کی کار کو فالو کر رہے تھے، لڑکے نے جب دلھن کو کار سے اُتار کر پارکنگ میں کار پارک کررہا تھا اُسی وقت قاتلوں نے لڑکے کو گن پوائنٹ پر لے لیا اور کار سمیت اغوا کر لیا۔
پرچہ نامعلوم افراد کے خلاف ہو گیا سسرال والوں نے لڑکی کو عدت کیلئے اُس کے والدین کے گھر بھیج دیا۔ میڈیا میں بڑا شور تھا کہ شادی کے تیسرے دن بینک کا وائس پریذیڈنٹ اغوا کے بعد قتل ہوگیا۔
میرے پاس لڑکے کے والد صاحب اپنے کچھ دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ دفتر میں شکایت لے کر آیا، اُن کی شکایت یہ تھی کہ ہم نے تفتیشی افسر کو ثبوت دیئے ہیں کہ ہماری نئی نویلی بھو نے ہمارے لڑکے کو اغوا کرواکر قتل کروایا ہے اور تفتیشی افسر اُس کو گرفتار نہیں کر رہا۔ میں نے اُسی وقت تفتیشی افسر کو دفتر بلا لیا۔
تفتیشی افسر نے واقع کی پوری تفصیل بتائی جو میں اوپر آپ کو بتا چکا ہوں، مزید یہ بتایا کہ لڑکی کا موبائل کال رکارڈ نکالا گیا ہے، اور مقتول لڑکے کا بھی موبائل کال رکارڈ نکالا گیا ہے، لڑکے کا فون تو پارگنگ میں بند ہوگیا ہے مگر لڑکی کو مال میں کار سے اُترتے ہی ایک میسج آیا ہے اور لڑکی نے اُس میسج کا جواب بھی دیا ہے،
لڑکی کار سے اتر رہی ہے مال کے CCTV کیمرا سے وہ وڈیو مل گئی تھی، مال کی اندر دوسری وڈیوز چیک کی گئی تو کیمرا کے ٹائم اور لڑکی کے کال رکارڈ کا ٹائم کا موازنہ کیا گیا تو لڑکی کو کار سے اُترنے کے بعد میسج موصول ہوا اور لڑکی نے مال میں اندر سے اُسی میسج کا جواب دیا جو مال کے کیمراز میں صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ لڑکے کی یہ بد قسمتی تھی کہ مال کے پارکنگ میں کوئی کیمرہ وغیرہ نہیں تھا جس سے پتہ چلتا کہ کیا ہوا ہے اور مُلزمان کون سی گاڑی میں سوار تھے۔
کال رکارڈ اور مال کے وڈیوز کی ٹائمنگ وغیرہ سے لگ رہا تھا کہ لڑکی کی طرف سے کوئی گڑبڑ ضرور ہے مگر لڑکی کی گرفتاری سے پہلے میں وہ میسج دیکھنا چاہتا تھا کہ لڑکی کو کیا میسج آیا ہے اور لڑکی نے کیا جواب دیاُ،
میرا جہاں تک بس چلتا تھا میں لوگوں کی گرفتاری میں احتیاط کرتا تھا اور خاص کرکے عورتوں کی گرفتاری تو دس دفعہ چیزوں کو چیک کرنے کے بعد کرآتا تھا،
( مشھور آرٹسٹ گل جی مرڈر کیس میں میری اپنے آئی، جی صاحب سے ان بن ہوگئی تھی، میڈیا اور فیملی کا دباو تھا کہ گل جی کے بیٹے کو شامل تفتیش کیا جائے مگر نے صاف منع کردیا تھا کہ یہ کام مجھ سے نہیں ہوگا پہلے چیزوں کو کلیئر ہونے دیں) ۔
میں نے IT والوں کو کہا کہ لڑکی کے کال رکارڈ میں جتنے نمبر ہیں ان کا کال رکارڈ نکالیں۔ میسج کرنے والے لڑکے کا کال رکارڈ۔ اور میسج والے لڑکے کے کال رکارڈ میں سے جتنے نمبر ہیں سب کا کال رکارڈ نکالیں اور تفتیشی افسر کو کہا کہ آپ کل لڑکی کے والد کو میرے دفتر بُلا لیں اور ریڈر کو بھی کہا کہ کل لیڈیز پولیس کو بھی اسٹینڈ بائی رکھنا ہے۔
دوسرے دن میں دفتر سادے کپڑوں میں اور اپنی پرائیویٹ کار میں گیا اور تفتیشی افسر کو بھی سادی کپڑوں میں دفتر آنے کا میسج کرا دیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ہم لڑکی کے کھر اس طرح جائیں کہ محلے والے سمجھیں کہ ان سے کوئی مھمان ملنے آیا ہے۔ کسی سفید پوش کے گھر پر پولیس چڑھائی کرآنے سے مجھے اللہ پاک سے ڈر لگتا ہے کہ آگر کسی بے گُناہ کے گھر پولیس کا ریڈ یا گرفتاری ہو جائے اور وہ بھی کسی لڑکی کی گرفتاری ہو جائے تو اس کا ازالہ پوری زندگی ممکن نہیں ہے
لڑکی کا والد اور تفتیشی افسر دفتر آچُکے تھے اور ایک لیڈی پولیس افسر سادہ لباس بھی دفتر بُلا لی تھی۔ میں نے لڑکی کے والد سے موبائل فون لے کر بند کرکے اپنی جیب میں رکھ دیا اور اس کو کہا کہ ہم آپ کی لڑکی سے کچھ پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہیں آپ ہمارے ساتھ چلیں۔
میں، تفتیشی افسر اور لیڈی افسر لڑکی کے والد کے ساتھ اُس کی کار میں لڑکی کے گھر روانہ ہوئے، لیڈی پولیس افسر آگے لڑکی کے والد کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی، لڑکی کے والد کو لیڈی افسر کے سامنے تاکید کردی تھی کہ وہ گھر والوں کو کچھ نہیں بتائے گا۔ لڑکی کے والد کے ساتھ لیڈی پولیس افسر نے گھر کے اندر جاکر ڈرائینگ روم کا دروازہ کھولا، ہم دونوں وہاں بیٹھ گئے، تھوڑی دیر میں لیڈی افسر ہدایات کے مطابق لڑکی کو ڈرائینگ روم میں لے آئی اور لیڈی افسر نے لڑکی کا فون میرے حوالے کردیا۔
جیساکہ میں بتاچُکا ہوں کہ لڑکی والوں کا تعلق کشمیر سے تھا اسلئے لڑکی Special creation of God تھی مگر لڑکی اپنے ساتھ بدقسمتی لیکر آئی تھی جو تیسری دن بیوہ ہوگئی تھی۔
میں نے لڑکی سے واقع والے دن کا پوچھا کہ کیا ہوا تھا ؟ لڑکی نے وہی تفصیل بتادی جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں، میں نے کال رکارڈ نکال کر لڑکی کا فون چیک کرنا شروع کیا، واقع والے دن کے سارے میسج ڈلیٹ کردئیے گئے تھے، میں نے لڑکی سے سوال کیا کہ آپ نے میسج کیوں ڈلیٹ کردئیے ہیں ؟ لڑکی نے بتایا کہ Nokia کے اس ماڈل میں زیادہ میسج store نہیں ہوتے اس لیئے پُرانے میسج ڈلیٹ کرنے پڑتے ہیں،
لڑکی سے سوال کیا کہ میسج والا لڑکا کون ہے ؟ لڑکی نے بتایا کہ یہ لڑکا یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھتا ہے اور میرے ساتھ صرف میسج کی حد تک رابطے میں ہے، میں نے لڑکی سے پوچھا کہ واقعہ والے دن لڑکے نے آپ کو کیا مسج کیا تھا ؟ لڑکی نے بتایا کہ لڑکا فاروڈیڈ میسج ارسال کرتا تھا اور میں بھی اخلاقن جواب میں فاروڈیڈ میسج ارسال کرتی تھی۔
میں لڑکی کے انٹروگیشن سے مطمعین نہیں تھا اور میسج کی تصدیق کے بغیر لڑکی کو گرفتار کرکے اُس کی زندگی تباہ نہیں کرنا چاہتا تھا، لڑکی ابھی تک یونیورسٹی سے فارغ نہیں ہوئی تھی، جیساکہ لڑکی خوبصورت تھی اور ایک بینک کے وائیس پریذیڈنٹ کا رشتہ آیا تو گھر والوں نے لڑکی کا رشتہ کردیا،
میرے پاس لڑکے کو گرفتار کرکے اُس کو اچھی طرح انٹروگیشن کرنے کا آپشن تھا اور دوسرا آپشن موبائل فون کے سارے ڈلیٹ شدہ میسج retrieve کروا کر دیکھے جا سکتے تھے۔ اس لیئے مجھے لڑکی کو گرفتار کرنے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔
مین نے اپنی کار منگوا لی تھی۔ یہاں سے فارغ ہوکر دفتر چلا گیا، کچھ دیر دفتر میں بیٹھ کر CTD کے دفتر لڑکی کا موبائل فون لیکر چلا گیا۔
CTD میں ڈپٹی ڈائریکٹر IT وسیم صاحب تھے۔ وسیم صاحب کو میں نے سارا ماجرا بتایا کہ ایک اغوا اور قتل کا کیس ہے، لڑکی کو اپنے شوہر کے اغوا کے وقت کچھ میسج آئے ہیں اور لڑکی نے اُس میسج کا جواب بھی دیا ہے۔ میسج کیا تھے وہ دیکھنا ضروری ہیں ۔ آپ کے تعاون سے یہ کیس آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ وسیم صاحب نے موبائل فون دیکھ کر کہا کہ اس موبائل فون کا سافٹ ویئر ہمارے پاس نہیں ہے، میں ابھی آپ کے جاتے ہی صدر جاتا ہوں اور سافٹ ویئر ڈھونڈتا ہوں۔
دوسرے دن وسیم صاحب نے مجھے فون کیا کہ آپ CTD آ جائیں آپ کا کام ہوچکا ہے۔ میں دفتر میں سارے کام چھوڑ کر CTD چلا گیا۔ وہاں وسیم صاحب نے مجھے موبائل فون اور فون سے تین مہینے Incoming اور outgoing میسیجز کی details کے ساتھ لسٹ تھما دی، میں نے اُن کا شُکریہ ادا کیا، چائے کے بعد وسیم صاحب مجھے گاڑی تک چھوڑنے آئے راستے میں وسیم صاحب نے مجھے کہا کہ سر آپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے مزا آتا ہے، آپ کراچی کے واحد افسر ہیں جو کام خود لیکر آتے ہیں اسلئے آپ کا کام سارے کام چھوڑ کر پہلے کرنا پڑتا ہے۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی واقعہ والے دن کے میسج دیکھے جو عام فاروڈیڈ میسج تھے، میں نے تین مھینے کے سارے میسج ایک ایک کرکے دیکھے لڑکی نے کبھی لڑکے کو کوئی پرسنل میسج نہیں کیا تھا۔
میں نے تفتیشی افسر کو کہا کہ قتل ہونے والے لڑکے کے والد کے ساتھ دفتر آجائے۔ لڑکے کا والد ایک پڑہا لکھا سمجھدار آدمی تھا، میں نے موبائل فون کا حاصل شُدہ تفصیل کی فوٹو کاپی کرواکر لڑکے کے والد اور تفتیشی افسر کو دی اور CTD کے افسر وسیم صاحب کا بھی نمبر دونوں کو دے دیا اور بتایا کہ دونوں اس کو دیکھ لیں اس میں لڑکی کے تین مہینے کے ڈلیٹ شدہ میسج ہیں، اپنے IT انچارج کو بلاکر کہا موبائل فون کی جیسے جیسے ڈیٹیل آتی جائیں، لڑکے کے والد صاحب، تفتیشی افسر اور مجھ سے شیئر کرتا جائے۔
کچھ ہفتوں میں ساری معلومات آگئیں، لڑکی کے سارے نمبر اور یونیورسٹی میں لڑکی کے ساتھ پڑھنے والے سارے نمبر فلٹر کر لیئے گئے تھے، میرے IT والے قتل ہونے والے لڑکے کے والد اور تفتیشی افسر سے ہر آنی والی چیز شیئر کر رہے تھے، ہمیں تلاش تھی کہ کون سا نمبر مقتول کے اغوا کے وقت شاپنگ مال کے قریب تھا مگر لڑکی اور یونیورسٹی کے لڑکے کا کوئی نمبر اس لوکیشن پر نہیں تھا۔
لڑکی کے ساتھ پڑھنے والے لڑکے کو بھی بلاکر پوچھ گچھ کی گئی مگر اس کیس کے متعلق کوئی معلومات نہُ مل سکیں
ایک دن مقتول کے والد کو بلاکر میں نے پوچھا کہ تفتیش کے سارے پراسس میں آپ ساتھ ساتھ ہیں اب آپ بتائیں کہ آپ کی بہو کا کیا کیا جائے کیوں کہ لڑکی کا والد پریشان پھرتا ہے، مقتول لڑکے کے والد نے بتایا کہ لڑکی والے ابھی تک ہم سے رابطے میں ہیں، لڑکی ہمارے لڑکے کے اغوا اور قتل میں ملوث نہیں ہم نے جب لڑکی کے سارے ڈلیٹ شدہ میسج دیکھنے کے بعد اللہ پاک کا شُکر ادا کیا کہ اللہ پاک نے ہم کو ایک بڑے گناہ سے بچا لیا ہے، اب ہم جانتے بوجھتے ایک بیگناہ لڑکی کو قتل کیس میں بند نہیں کرا سکتے۔
ں نے دوسرے دن لڑکی کے والد کو بلاکر اُسے لڑکی کا موبائل فون واپس کردیا اور بتایا کہ آپ کی لڑکی بیگناہ ہے ہم نے پورا چیک کرلیا ہے۔لڑکی کا والد فرت جذبات میں رونے لگا وہ کبھی میرے ہاتھ چومتا اور کبھی گلے لگاتا، اس موقعہ پر میرے خود آنسو نکل آئے، کسے نے کہا ہے کہ ستر گنہگار اگر بری ہوجائیں تو گناہ نہیں مگر ایک بے گناہ کو سزا ہوجائے تو عرش ہل جاتا ہے ۔ مجھے اُس دن جو خوشی ہوئی وہ میں زندہ گی بھر نہیں بھول سکتا، خود کو ہلکا پُلکا اور پر سکون محسوس کر رہا تھا۔ آج بھی جب وہ لمحے یاد کرتا ہوں تو سرد ہوا کے جھونکے جسم میں کپکگی پیدا کرتے ہیں ۔ اللہ پاک نے مجھے راستہ دکھایا کہ میں نے لڑکی کے سارے میسج retrieve کرا لیئے اور وسیم صاحب فرشتہ بن کر سامنے آئے ورنہ لڑکی والوں اتنا دم نہیں تھا کہ قتل کیس کو فیس کر لیتے اور لڑکی کے ساتھ خومخوا یونیورسٹی والا لڑکا اور اس کا خاندان بھی پس جاتا
اب تک ہم لڑکی والے ٹریک کو دیکھ رہے تھے، ہم نے مقتول کی سابقہ زندگی پر کوئی کام نہیں کیا تھا جب مقتول کی ماضی کو کھنگالا گیا تو کیس حیرت انگیز طور پر ورک آوٹ ہوگیا، اور مُلزمان پکڑے گئے ، اس کی الگ سے ایک لمبی کہانی ہے، بعد میں کسی وقت اُس پر لکھوں گا۔
میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جلد بازی نہ کرکے ایک بیگناہ لڑکی اور یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والا لڑکا ہم پولیس والوں کے عتاب سے بچ گئے، CTD کے وسیم صاحب کی بدولت نئی Technology نے اُن کو اللہ پاک کی رضا سے بچا لیا، ورنہ لڑکی اور لڑکے اور ان کی فیملیز کو تباہ ہو جانا یقینی تھا۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...