(Last Updated On: )
جیون کے اندھیرے بھی کبھی تو چھٹ ہی جائیں گے
رستے سے یہ روڑے بھی، کبھی تو ہٹ ہی جائیں گے
امر ہوتا ہے، باور یہ ۔۔۔دشمن کی بغاوت سے
آپس کے یہ جھگڑے سے ۔۔۔۔۔۔یقیناً بٹ ہی جائیں گے
منزل تک رسائی کا ہمیں یقین ہے پختہ
سفر کے یہ مصائب بھی آخر گھٹ ہی جائیں گے
ہم نے دمِ آخر تک، ہے تگ ودو رواں رکھنی
فاصلے یہ آزادی سے، آخر سمٹ ہی جائیں گے
عدو کو ناز ہے اپنی ۔۔۔۔۔۔۔فوج کے تعدد پر
قہر بن کے پھر بھی ہم۔۔۔۔ان پہ جھپٹ ہی جائیں گے
نمودِ صبحِ روشن کا نزول بس ہونے والا ہے
دن یہ پھر مصیبت کے ۔۔۔۔۔جلدی کٹ ہی جائیں گے
“