جب میں نے کل ایک کہانی پیش کی اور کہا کہ ہمارے اس احتجاج سے دنیا پر کیا اثر ہوا ہے تو بہت سے لوگوں نے اس کی تائید کی اور کچھ نے تنقید بھی کی۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا تھا کہ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ دنیا پر اس کا بڑا اثر ہوا اور دنیا کو اندازہ ہوگیا کہ اس مسلے پر پوری قوم کشمیریوں کے ساتھ۔ میرا ان سے سوال ہے کیا اس سے ۰۷۳ تو دور کی بات ہے کیا کشمیریوں سے کرفیوں ہٹ گیا؟ اس طرح کے اقدامات یعنی احتجاج اور دعائیں تو ہم گزشتہ ستر سال سے کر رہے ہیں پھر کشمیریوں کی حثیت میں کیا تبدیلی ہوئی؟
پاکستان کو حال میں کشمیر کے معاملے میں بین الاقومی دنیا میں اپنی حثیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔ اس کی جو وجوہات پاکستانی حکمران اور دانشور بھی بیان کر رہے ہیں ان میں بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے اس لیے دنیا ان کے ساتھ ہے۔ ان دانشورں سے کوئی پوچھے کہ عرب ممالک کون سے صنعتی ممالک ہیں انہیں وہاں اپنی کون سی چیز بیچنی ہوتی ہے۔ ان کے پاس صرف تیل ہے اور تیل بھارت کی ضرورت ہے۔ یہاں تک ان ممالک میں فلسطین بھی شامل ہے جو اپنی کوئی چیز بیچتا نہیں ہے بلکہ خود دنیا کی امداد سے چل رہے اس لیے یہ جواز فصول ہے۔ مگر پاکستان نے صرف زبانی کلامی احتجاج کرنے کے سوا خود کیا کیا؟
موجود حکومت کو جب پیسوں کی ضرورت پڑی تو ہمارے وزیر اعظم اور دوسرے وزرا نے دنیا بھر کے طوفانی دورے کئے۔ لیکن کشمیر کا مسلہ آیا تو اس موقع پر وزیر اعظم، وزار اور وفود نے کتنے دورے کیے؟ یہاں تک سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر ہمارے مستقل مندوب کے علاوہ کوئی حکومتی عہدے دار نہیں تھا۔ جب کہ ہم مودی کو دیکھتے ہیں وہ دنیا بھر کے خود دورے کر رہا ہے۔ حالانکہ ہمارے وزیر اعظم کو خود دنیا بھر کے دورے کرنا چاہیے تھا اور دنیا کو بتانا چاہیے تھا کہ بھارت کا یہ اقدام خطہ کو جنگ اور اس خطہ کے لوگوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ جس کو پاکستانی حکومت کو روکنا بہت مشکل ہوجائے گا اور اس سے عالمی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ہم یہ تو کہتے ہیں کشمیر ہمارے لیے بہت اہم؟ ایک تو ہم اسے شہ رگ کہتے ہیں دوسری الٹا عوام کو ایٹمی جنگ سے ڈرایا جارہا ہے کہ بڑی تباہی ہوگی اور کوئی نہیں بچے گا اور جنگوں سے مسلے حل نہیں ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے جنگ بے شک تباہی لاتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ جنگ سے مسلے حل نہیں ہوتے ہیں یہ غلط بیانی ہے۔ جنگ ہمشہ خارجہ پالیسی کا ایک آلہ رہا ہے اور اس سے ہر دور میں اب بھی کام لیا جاتا رہا ہے۔ جنگ جیتنے والا فریق ہارنے والے فریق کو اپنی شرائط پر صلح کرتا ہے۔ اس کی موجودہ دور میں بھی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ کیا فاک لینڈ پر برطانیہ نے حملہ کرکے اپنے مقاصد نہیں حاصل کئے یا اسرائیل نے 1973ء کی جیت کر عرب ممالک کو ٹیبل پر بیٹھنے پر اور اپنی شرائط پر مجبور نہیں کیا۔ اس سے پہلے مشرقی پاکستان میں بھارت نے ہمیں شکست دے کر اپنی شرائط نہیں منوائیں؟ مثالوں کی میرے پاس کمی نہیں ۔ لوگ اس کے مقابلے میں عراق اور افغانستان کی مثالیں دیں گے جہاں امریکہ جنگ جیت نہیں سکا اور وہ اب طلبان سے مزاکرات کر رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب سے امریکہ ان خطوں خاص کر افغانستان میں آیا ہے وہاں استحکام نہیں رہا۔ لیکن میرا یہ سوال ہے کہ کیا امریکہ نے وہاں اپنے مقاصد نہیں حاصل کئے اور وہ طلبان سے اپنی شرائط منوانا نہیں چاہتا ہے؟ اگر ان ملک میں عدم استخکام پیدا ہوا تو اس سے امریکہ پر کیا فرق پڑا۔ اس لیے یہ کہنا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے غلط فہمی پر مبنیٰ ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں پاکستان کو عام جنگ چھیڑنے کے لیے نہیں کہوں گا۔ دنیا کو متوجہ کرنے کے لیے محدود علاقائی جنگ چھیڑی جاسکتی ہے اور بھارت کشمیر پر وقفاً وقفاً بمباری کرکے ہمیں موقع فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان کو عالمی دنیا کو بتا دینا چاہیے کہ یہ بمباری جس کے بے گناہ کشمیری مارے جارہے ہیں اس کا پیش قدمی سے دیا جائے گا۔ ہمیں جنگ سے نہیں ڈرنا نہیں چاہیے اور بھارت بھی عام جنگ نہیں چھیڑنے کی ہمت نہیں رکھتا ہے۔ اس کا پاکستان کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ دنیا کی نظریں اس مسلے پر مرکوز ہوجائیں گیں اور دنیا ایٹمی حملے سے ڈر کر اس مسلے کے حل کے لیے کچھ سوچے گی۔
قران الکریم سورۃ توبہ آیا ہے۔ جس میں کہا گیا اے مومنو نکل پڑو اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کے لیے۔ اگر تم نہیں نکلوں گے تو تمہارے لیے جو فتحوحات رکھیں ہیں وہ تمارے دشمنوں کو دے دی جائیں گیں اور تمیں آپس میں لڑا کر پارا پارہ کردیا جائے گا۔ کیا ہم اس کی تعبیر نہیں بنے ہوئے ہیں۔ مسلہ یہی ہے ہم آج تک کوئی مستحکم فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں کہ آئندہ کی حکمت عملی کیا ہوگی۔ اس طرح یہ مسلہ یونہی لٹکتا رہا ہے اور لٹکتا رہے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...