پاکستان میں ابھرتے ہوئے نوجوان شعراء اور شاعرات کی کثیر تعداد موجود ہے جو شعر و ادب کے میدان میں بھرپور طبع آزمائی کر رہی ہے اور ان تخیلات سے شعر و ادب کے نئے تقاضے بھی پورے ہو رہے ہیں ۔ کاشف لاشاری صاحب کا شمار بھی ایسے ہی شعراء میں ہوتا ہے ۔
کاشف لاشاری صاحب 18 جون 1991 کو سندھ کے ضلع کشمور کے قصبہ غوث پور میں پیدا ہوئے ان کے والد صاحب کا نام محمد عیدن ہے ۔کاشف لاشاری ان کا قلمی نام ہے ۔ وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کر سکے جس کے بعد روزگار سے وابستہ ہو گئے ۔وہ پرائیویٹ ادارے میں لیب اسسٹنٹ کے طورپر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے دسمبر 2016 سے شاعری کی ابتدا کی وہ اردو اور سندھی زبان میں شاعری کرتے ہیں ۔ سندھی زبان میں حزب اللہ سومرو صاحب اور اردو زبان میں زین شکیل صاحب شاعری میں ان کے استاد ہیں ۔ کاشف کی شاعری اردو اخبارات میں چھپتی رہتی ہے اور وہ مشاعروں میں بھی تواتر کے ساتھ شرکت کرتے رہتے ہیں ۔ ضلع کشمور اور ضلع جیکب آباد سندھ میں ادبی سرگرمیاں اور مشاعروں کا انعقاد اکثر ہوتا رہتا ہے ۔اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ مشاعروں میں شرکت کرنے سے شعر و ادب کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے جبکہ آن لائن اور زوم مشاعروں کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ان سے شعر و ادب کا اصل حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ ان کے پسندیدہ شعراء میں داغ دہلوی، حضرت ذہین شاہ تاجی، سید مبارک شاہ، سید عبدالحمید عدم، سید بیدم شاہ وارثی، خواجہ عزیز الحسن مجذوب اور ان کے استاد زین شکیل صاحب شامل ہیں ان کے علاوہ دیگر تمام بڑے اور اچھے شعراء اور شاعرات کی شاعری بھی ان کو پسند ہے ۔ اپنی شاعری کے مقصد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میری شاعری کا کوئی مقصد نہیں ہے، میں شاعری صرف اپنے لیے کرتا ہوں ۔ کاشف لاشاری صاحب کی شاعری سے کچھ انتخاب حاضر خدمت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تُم سے ہی منسلک یہ حوالوں کی خیر ہو
دل میں نہاں سبھی مِرے نالوں کی خیر ہو
مانا۔۔۔عِوض وفا کے جفا ہم کو مل گئی
لیکن دُعا ہے ایسے ازالوں کی خیر ہو!
درکار کچھ نہیں ہمیں اِن دونوں کے سِوا
بالوں کی خیر ہو، تِرے گالوں کی خیر ہو !
ناکردہ ہی گناہ کا لیتے حساب ہیں
یہ عقل ہے معاشرہ والوں کی "خیر ہو" !!
ہم تیرگی کے باسی ہمیں راس آئے دکھ
منسوب تُم سے یار! اجالوں کی خیر ہو
کاشف کے شعر سُن کے یہی اُس نے کہہ دیا:
بے ربط تیرے سارے خیالوں کی خیر ہو!
۔۔۔۔
منتخب اشعار
کی پتھروں کی پوجا اک دکھ یہی ہے لاحق
کرتے خدا کی طاعت درجات اور ہوتے
۔۔۔۔
مَیں سوگوار سہی، یار! سوگواری میں
برائے نام ہی خود کو بحال رکھا ہے
۔۔۔۔
مِرے حبیب! مِرے حال پر ملال نہیں؟
یہ پوچھنا ہے کہ اب کیا مِرا خیال نہیں
۔۔۔
میری عقیدتوں میں کمی آ گئی ضرور
یوں اپنے آپ کو تو نہ کھونے کا دکھ ملا !