جاڑا آتا ہے تو خوبصورتی کی ایک اداس چادر اترتی ہے اور اسلام آباد کے پارکوں، سیرگاہوں اور گرین ایریا کے پودوں اور درختوں پر تن جاتی ہے۔ دنیا میں کم ہی ایسے شہر ہوں گے جن میں سردیوں کی دھوپ اتنے رنگ لاتی ہو ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
کھِلی دھوپ میں کچھ درختوں کے خوں رنگ سرخ پتے اس شہر کا خاص وصف ہیں۔ کنونشن سنٹر سے مری کا رخ کریں تو بارہ کہو تک شاہراہ کے دونوں طرف سرخ پتوں والے یہ درخت دل کے اندر دورتک اترتے جاتے ہیں۔ پہاڑیوں کے پس منظر میں دلفریب نظارا دیکھنے والے کوکسی اور دنیامیں لے جاتا ہے۔ اتنے میں شاہراہ پر نظر پڑتی ہے تو دل کا فریب آنکھوں سے ہٹ جاتا ہے۔ سی این جی سٹیشن سے باہر گاڑیوں کی قطار ایک کلومیٹر دورتک چلی گئی ہے۔ خلق خدا گھنٹوں انتظار کرتی ہے تو چند کلو گیس ملتی ہے جیسے خون پسینے کی کمائی سے نہیں بھیک میں دی گئی ہو۔ کہاں وہ حسن جو قدرت نے اسلام آباد کو دیا ہے اور کہاں یہ زبوں حالی جو اہل اقتدار نے اس شہر کے مکینوں پر موسلادھار اتاری ہے۔ اپنے کام چورملازمین کو مفت بجلی فراہم کرنے والا سرکاری ادارہ اس شہر کے مختلف حصوں کو باری باری اندھیروں کی دلدل میں دھکیلتا ہے۔ اس کالم نگار نے ایک بار ایس ڈی او سے لے کر چیف انجینئر تک کو پوچھا، لوڈشیڈنگ کی اطلاع کسی کو نہیں تھی۔ ہراہلکار ایک ہی بات کہتا تھا کہ فلاں بات فلاں شعبے کو معلوم ہے اور میں فلاں شعبے سے ہوں۔ ایسا ہی ظلم ٹیلی فون کے سرکاری محکمے کا سفید ہاتھی ڈھا رہا ہے۔ کہاں کے لیپ ٹاپ اور کہاں کا انٹرنیٹ ، تاریں وہ بچھی ہیں جو پوری دنیا میں ازکار رفتہ ہوچکی ہیں۔ وہ تو بھلا ہو نجی شعبے کی ایک کمپنی کا جو دارالحکومت کے چند حصوں میں یہ سروس بہم پہنچا رہی ہے اور آپٹک فائبر پر انٹرنیٹ کاکنکشن دے رہی ہے۔ اس کالم نگار کے ایک عزیز کے ہاں انٹرنیٹ چارماہ سے نہیں کام کررہا لیکن ہرماہ ایک بھاری بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ شکایت کرنے کا کوئی نظام ہی نہیں ۔ یہ حال دارالحکومت کا ہے تو دوسرے شہروں اور قصبوں میں کیا ہورہا ہوگا اور کیا نہیں ہورہا ہوگا!
دارالحکومت کے چاند کو گہنانے کا سب سے بڑا تمغہ فوجی آمر ضیاء الحق کے گلے میں پہنایا جائے گا۔ ماسٹر پلان کو تہس نہس آں جناب نے کیا۔ پلاٹوں کی وہ بندربانٹ ہوئی کہ الامان والحفیظ۔ جس نے کہا کہ میں اردن میں آپ سے ملا تھا، اسے ہی تجوری کھول کر پلاٹ دے دیا۔ زرعی فارم، جن کا زراعت سے کوئی تعلق نہیں، ایکڑوں پر پھیلی ہوئی پودوں کی نرسریاں اور بڑے بڑے رہائشی پلاٹ ، مردمومن نے اس طرح تقسیم کیے جیسے موصوف کی ذاتی جاگیر تھی۔ اوسط سے بھی نچلے درجے کے ایک خوشامدی افسر کو پورا عشرہ مشرق وسطیٰ میں تعینات کیے رکھا کہ وہ ذاتی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اداروں کی وہ شکست وریخت ہوئی اور قانون کا وہ خانہ خراب ہوا کہ آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے سارک کی ایک کانفرنس کا آنکھوں دیکھا حال لکھا تھا۔ سری لنکا تھا یا شاید بھارت، ایسی ضیافت تھی کہ غریب ملک کے کروڑوں روپے ڈھیر ہوگئے۔
بات دارالحکومت کی ہورہی تھی۔ یہ خوبصورت شہر اس حسین عورت کی طرح ہے جو اپنے عاشقوں کو اپنی بدمزاجی اور زبان درازی کی وجہ سے ہمیشہ اذیت میں رکھتی ہے۔ خون پسینے کی کمائی سے اس شہر کے ایوان وزیراعظم، ایوان صدر، پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ لاجز کو پرتعیش رکھنے والے عوام کو اس شہر سے کبھی خوشی کا پیغام نہیں ملا۔ نوکرشاہی کے وہ ارکان جو پہاڑوں کے دامن میں پھیلے ہوئے سیکرٹریٹ کے آرام دہ دفاتر میں زیادہ وقت نکٹائیوں کی ناٹ درست کرنے میں گزارتے ہیں، ایسی ایسی عوام کش پالیسیاں بناتے ہیں اور پھر ’’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ حکمرانوں سے منظور کرواتے ہیں کہ عوام کی ایسی تیسی ہوجاتی ہے۔ برسوں پہلے اسلام آباد پر کہی ہوئی نظم آج بھی اتنی ہی برمحل ہے جتنی اس وقت تھی۔
کُہر تو خیر عنقا نہ تھی
اور کبھی صبحدم منجمد آب کے صاف شفاف ٹکڑے بھی سڑکوں پہ
مل جاتے تھے۔
بادوباراں کے بھی سلسلے تھے
نیم شب شاہراہوں کے اونچے چراغ
(عشرتوں کی علامت) لرزتے بھی تھے۔
جامہ زیبی میں بھی ترکمانوں سے ہم کم نہ تھے
سموراور اُون ، پوستینیں بھی فرغل بھی تھے
خشک میوے، لہورنگ جاں بخش مشروب ، الائو
کون سی شے خط استوا کے مکینوں کو حاصل نہ تھی
مگر ایک حسرت!
ہم کتابوں میں پڑھتے رہے اور
پہاڑوں کی سرسبز اونچائیاں
دشمنی اور حِرماں کی کھڑکی سے تکتے رہے
کاش!اس شہر پر برف گرتی !!
لیکن کب تک؟اگر اس شہر کی عشرت گاہوں سے نکلتی ہوئی پالیسیاں پاکستانی عوام کو اسی طرح اندھیروں میں دھکیلتی رہیں اور قطاروں میں پہروں کھڑا رکھتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب صبر کے پیمانے چھلک اٹھیں گے۔ لوگوں کی آنکھوں میں خون اتر آئے گا اور وہ ان ایوانوں کو بھی اندھیروں میں غرق کردیں گے۔ جو ہروقت روشنیوں میں نہاتے ہیں، جہاں کے مکینوں کو ٹھٹھرتے صبح وشام کا احساس ہی نہیں ہوتا اور جو جون جولائی کی قیامت خیز گرمی میں کمبل اوڑھ کر سوتے ہیں۔ آج ہم حسنی مبارک اور قذافی کے انجام کا ذمہ دار امریکہ کو لاکھ ٹھہرائیں، آخری حقیقت یہ ہے کہ عوام کی قیمت پر عیاشی کرنے والے جلد یا بدیر اس انجام کو ضرور پہنچتے ہیں جس تک رومانیہ کا سی سیسکو اور ایران کا رضا شاہ پہنچے تھے۔ امریکہ تو بہانہ ہے۔ امریکہ تو قدرت کے ہاتھوں میں کھیلتی ہوئی پتلی ہے جسے فرعونوں کو سزادینے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ جب امریکہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے چکے گا تو قدرت اسے بھی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے گی!
یہاں میلبورن میں، بحرالکاہل کے کنارے پر، گرمی کا موسم اپنے رنگ دکھا رہا ہے۔ ایک دن ٹمپریچراڑتیس یا چالیس ہوتا ہے تو اس کے بعد دودن سترہ اٹھارہ، یہاں تک کہ سویٹر نکل آتے ہیں۔ کرۂ ارض دوحصوں میں منقسم ہے۔ شمالی نصف اور جنوبی نصف۔ جنوبی نصف میں گرمیاں نومبر کے آخر میں شروع ہوتی ہیں اور مارچ اپریل تک جاتی ہیں۔ جون میں سرما نازل ہوتا ہے اور ستمبر تک سردی کا راج رہتا ہے۔ انڈونیشیا ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ ، تنزانیہ ، زمبابوے، ارجنٹائن ، چلی اور کچھ اور ممالک جنوبی حصے میں ہیں اور آج کل گرم موسم کے مزے لے رہے ہیں۔ آسٹریلیا ، ثقافتی اور ادبی حوالے سے برطانیہ کی شاخ ہے لیکن اس وقت صورت حال دلچسپ ہوجاتی ہے جب برطانیہ میں لکھے ہوئے ادب، بالخصوص شاعری اور فکشن میں ،خزاں کا ذکر دسمبر اور بہارکا تذکرہ مارچ اپریل کے حوالے سے آتا ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بہار کا موسم اکتوبر میں شروع ہوتا ہے اور خزاں مارچ اپریل میں پہلے خشک پتوں کے ڈھیر گرانا شروع کرتی ہے۔ انگریزی ادب میں بحری جہازکا ذکر ہوتا ہے۔ آسٹریلیا جیسے ملکوں کی دریافت بحری جہازوں ہی کی مرہون منت ہے لیکن اصل کارنامہ ان بہادر جہازرانوں اور ملاحوں کا تھا جو موت کو سامنے دیکھ کر بھی مہمات سے پیچھے نہیں ہٹے۔ کہاں وہ حال کہ جب پہلا جہاز سزایافتہ قیدیوں کو لے کر جنوری 1788ء میں سڈنی کے ساحل پر لگا تو خوراک اور پینے کا پانی لانے کے لئے جہاز کو جنوبی افریقہ جانا پڑتا تھا اور کہاں یہ حال کہ آج آسٹریلیا میں ٹونٹیوں سے نکلنے والا عام پانی، پینے کا بہترین پانی شمار ہوتا ہے۔ کسی سڑک پر شکستگی کی لکیر تک نہیں۔ گھروں کی چاردیواریاں ہیں نہ گیٹ، چوری کا ڈر ہے نہ ڈاکے کا خوف۔ دوسوبیس سال میں اس ملک نے ان ممالک کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے جو ہزاروں سال سے آباد ہیں۔ آج آسٹریلیا کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں سرفہرست ہے اور اس ترقی میں امن وامان اور حفاظت بھی شامل ہے۔ وجوہات تو بہت سی ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں لیڈروں کا معیار زندگی وہی ہے جو عام لوگوں کا ہے۔ ان کے بچے اور اہل خانہ انہی سکولوں اور انہی ہسپتالوں میں جاتے ہیں جہاں ایک عام آسٹریلوی جاتا ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ قطارمیں کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ اولاد شہزادوں کی زندگی نہیں گزارتی۔ کوئی بلاول ہے نہ مونس الٰہی نہ حمزہ شہباز شریف۔ رائے ونڈ ہے نہ سرے محل ۔ جدہ میں کارخانے ہیں نہ فرانس میں محلات۔ پارٹیاں اور حکومتیں وراثت میں نہیں ملتیں۔ لیکن یہ بات ہمارے سیاسی ورکر نہیں سمجھنا چاہتے