کاش ڈاکٹر صاحبہ مسلمان ہوتیں!
اپنی پوری زندگی پاکستانی قوم کے لیے وقف کرنے والی جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ گزشتہ روز انتقال کر گئیں۔ کراچی میں لیپروسی یا جذام (کوڑھ) کے مریضوں کے ساتھ اپنے شب و روز گزارنے اور جرمنی کی پرتعیش زندگی چھوڑ کر پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کو زندگی کی نوید سنانی والی یہ عظیم عورت کم از کم تعریف کے اعتبار سے میرے الفاظ کے بس کی نہیں۔
یہ عورت ان سینکڑوں ڈاکٹروں کے لیے بھی ایک مثالیہ تھیں، جو سفید کوٹ پہنتے ہوئے یہ قسم کھاتے ہیں کہ کسی بھی مریض کو زندگی لوٹانے کے لیے وہ اپنی تمام تر کوشش کر دیکھیں گے۔
حالیہ ماہ رمضان میں جب یہ خبر مجھے دیکھنے کو ملی تھی، تو میرا دل ٹوٹ گیا تھا کہ ایک مسیحی خاکروب کو ایک ہسپتال میں صرف اس لیے مرنے دیا گیا کہ گٹر کی صفائی کی وجہ سے اس کا جسم غلاظت سے لتھڑا ہوا تھا اور ایک ایسے لمحے میں جب مریض سانس کھو رہا تھا، اس ہسپتال میں یہ بحث جاری تھی کہ ڈاکٹروں کا روزہ ہے اور ورثا پہلے مریض کو صاف کریں، تاکہ بدبو سے ڈاکٹروں کا روزہ نہ ٹوٹ جائے۔
ہمارے ہاں چوں کے لوگوں کے ایمان سے متعلق رائے اور کسی فرد کی آخرت سے متعلق اپنی اسناد دینا ایک قومی ریت بن چکا ہے، تو سوشل میڈیا پر بھی ڈاکٹر فاؤ کی خدمات کا اعتراف کرنے اور اس عظیم عورت کو خراج عقیدت پیش کرنے یا قوم کی طرف سے ان کے احسانات کا اعتراف کرنے کی بجائے، یہ جملے تک دیکھنے کو ملے کہ کاش کہ یہ عظیم عورت مسلمان ہوتی، تو اس کی آخرت سنور جاتی یا اتنے اچھے کام کرنے کے باوجود یہ عورت جہنم میں جائے گی۔
ان جملوں کو احسان فراموشی اور ہٹ دھرمی یا واہیات اور گھٹیا سوچ کے علاوہ تو کچھ تعبیر نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ اس سے واضح ہے کہ بہ حیثیت قوم ہم نے لوگوں کی تربیت کیا کی ہے اور کس قسم کی فکر کے حامل لوگ ہماری زبوں حالی کی تصویر بن چکے ہیں۔
بھارت میں ٹریسا نے اپنی زندگی بھارتی قوم کو دی، حالاں کہ ٹریسا کے افکار اور وہاں ان کے کام پر بے شمار سوالات بھی موجود ہیں اور ناقدین ان پر کڑی تنقید بھی کرتے ہیں، مگر بھارتی قوم نے اس کے جواب میں اس عورت کو ایک طرح سے دیوی سمجھ کر ’ماں‘ پکارنا شروع کر دیا۔ کسی نے سوال نہیں پوچھا کہ اس عورت کا مذہب کیا تھا یا یہ عورت ’سورگ‘ میں جائے گی یا نہیں۔ بھارتی قوم نے مدر ٹیریسا کے انتقال پر ماتم کیا اور ان کے احسانات کا اعتراف کیا۔
کوئی شخص جنت میں جائے گا یا نہیں یہ خدائے کائنات کا کام ہے۔ اس میں کسی انسان کا دخل کب آیا اور خصوصاﹰ کم علم اور نچلی سوچ کے حامل افراد کو یہ کس نے بتایا کہ انہیں خدا کے اختیارات میں شرکت کا حق ہے؟ یہ معاملہ خدا کے ہاتھ سے کب ہم نے اپنے ہاتھ میں لے لیا؟
مگر ہمارے ہاں احسان فراموشی کے ساتھ ساتھ انسانوں کے اعمال کی بجائے ان کے اعتقادات کو جانچنا ایک قومی فریضہ سا بنتا نظر آتا ہے۔ سارا سارا دن جھوٹ بولنے والے، غیبت کرنے والے، ملاوٹ کرنے والے، دوسروں کا مال پل میں ہڑپ کر جانے والے، چغلی کرنے والے، منافقت کرنے والے اور دوسروں کی عزت، جان اور مال پر نگاہ رکھنے والے ایسے مواقع پر ایک نہایت واہیات اور منافقت کے بھرپور رنگ میں نظر آتے ہیں اور یہ بہ طور قوم ہمیں آئینے میں اپنا گھناؤنا چہرہ دکھائی دینے کو کافی ہے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ جنت میں جائیں گی یا نہیں، یہ ان کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ بہ طور انسان ہم صرف کسی شخص کے کام کا ذکر کر سکتے ہیں اور میں بہ طور پاکستان ڈاکٹر فاؤ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی زندگی میری قوم کے لیے وقف کی اور کوڑھ کے مریض جنہیں ان کے قریبی رشتے دار تک بھی ہاتھ لگانے سے کتراتے ہیں انہیں دست شفقت سے زندگی دی۔
ڈاکٹر فاؤ آپ عظیم ہیں اور آپ جیسے افراد کی ہماری زمین کو شدید ضرورت ہے۔ میں اپنی قوم کی جانب سے ایسے گھناؤنے جملوں پر شرمندہ ہوں جو آپ کی تکریم کے منافی ہیں مگر ان لوگوں کو بھی دماغی طور پر کوڑھ زدہ سمجھ کر معاف کر دیجیے۔ آپ ہی نے کوڑھ کا علاج شفقت اور محبت سے کرنا سکھایا ہے۔
آپ ہی کے دیس سے ڈاکٹریٹ کرنے والے علامہ اقبال کا شعر آپ کہ نذر
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
ڈاکٹر فاؤ آپ کو سلام!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“