یہ نامعقول بچہ حجام کی دکان پر بیٹھا تھا۔دو اشخاص خصوصی کرسیوں پر براجمان بال کٹوا رہے تھے اور ہم تین اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ایک صاحب حجام صاحب کو اخبار پڑھ کر سنارہے تھے۔ہنگو پر ڈرون حملہ ہواتھا۔سنانے والا سنارہا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں میں تین افغان کمانڈر بھی شامل تھے۔یہ بچہ جو عمر میں آٹھویں ،نویں جماعت کا طالب علم لگ رہا تھا، اچانک بولا کہ افغان پاکستان علاقے ہنگو میں کیا کررہے تھے ؟ بحث چھڑگئی۔کالم نگار خاموشی سے سنتا رہا۔ ایک موقع پر جب حجام نے کہا کہ افغان کمانڈروں کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ یا ویزہ تھوڑی ہی درکار ہوتا ہے تو بچے نے پھر سوال کیا کہ کیوں؟ کیا افغان غیرملکی نہیں؟
لڑکے کے دونوں سوالات سن کر وہ مشہور و معروف بچہ یاد آگیا جس نے بلند آواز سے کہا تھا کہ بادشاہ ننگا ہے جب کہ ہر کوئی بادشاہ کے نئے ’’لباس ‘‘ کی تعریف کررہا تھا۔
کیا پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجا نب نہیں ہیں کہ غیر ملکیوں کو مطلوبہ دستاویزات کے بغیر پاکستان میں کیوں آنے دیا جاتا ہے؟روکا کیوں نہیں جاتا؟
کوئی یہ حقیقت تسلیم کرے یا شتر مرغ کی طرح سرریت میں چھپالے، افغان سرحد پاکستان کے لیے ایک ایسا درد سر ہے جس کا تاحال کوئی علاج نہیں دریافت ہوا۔ جب تک یہ سرحد حقیقی معنوں میں سرحد نہیں بنتی پاکستانی ریاست کی خود مختاری اور سلامتی ایک سوالیہ نشان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ڈرون حملے فضائی مداخلت ہے اور غیر ملکیوں کا دستاویزات کے بغیر اس ملک میں دندناتے پھرنا زمینی مداخلت ہے۔ جو لوگ اس زمینی مداخلت کو نظر انداز کررہے ہیں وہ دماغ کے فتور میں مبتلا ہیں یا اس ملک کی سرحدوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔سیدھی سی بات ہے کہ افغانستان ایک الگ ملک ہے اور پاکستان الگ۔جس طرح کسی ایرانی ، اطالوی یا مصری کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ اور ویزہ درکار ہے اسی طرح کسی افغان شہری کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے دستاویزات دکھانی چاہئیں۔
جوش جذبات میں کہا جاتا ہے کہ پاسپورٹ مغربی ممالک نے ایجاد کیا تاکہ خطوں اور علاقوں کے درمیان تفریق پیدا کی جائے ۔ خون میں اُبال پیدا کرنے کے لیے ایسی باتیں ازحد موزوں ہیں لیکن حقائق مختلف ہیں۔ازمنہ وسطیٰ کی اسلامی حکومتوں میں سرحد پار کرنے کے لیے کاغذات دکھاناضروری تھا۔خاص طورپر ٹیکس کی ادائیگی کا ثبوت۔ ٹیرف کا تو لفظ ہی عربی الاصل ہے ۔کچھ کہتے ہیں یہ تعارف سے اور کچھ کا خیال ہے کہ تعریف سے نکلا ہے۔ تاجر کے پاس ایک دستاویز ہوتی تھی جسے ’’تعارف‘‘ کہا جاتاتھا۔سرحد پار کرنے کے لیے اس کا دکھانا لازمی تھا۔یہ ’’ تعارف‘‘ بعد میں ’’ٹیرف‘‘ کہلانے لگ گیا۔ سلطنت عثمانیہ میں نہ صرف باہر جانے کے لیے بین الاقوامی پاسپورٹ لازمی تھا بلکہ سلطنت کے اندر سفر کرنے کے لیے ’’ اندرونی پاسپورٹ‘‘ بھی جاری کیے جاتے تھے۔ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے ضروری کاغذات جنہیں آپ پاسپورٹ کا نام دیں یا کوئی اور اسلامی امہ کے اتحاد میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔الگ ریاست کا مطلب ہی سرحدوں کا تقدس ہوتا ہے۔ جس زمانے میں بڑی بڑی مسلمان سلطنتیں قائم تھیں اس وقت بھی سرحدوں پر چھان بین ہوتی تھی۔سلجوقیوں کی اپنی حکومت تھی خوارزم کی اپنی ، عباسیوں کی اپنی خلافت تھی اور مصر میں حکومت الگ تھی۔آج کے منظر نامے میں یورپی یونین کی مثال سب کے سامنے ہے۔کرنسی ایک کردی گئی ہے اس کے باوجود بارڈر کراس کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی دستاویز دکھانا پڑتی ہے ۔ انتظامی معاملات ، ٹیکس کے معاملات ، دفاع کے معاملات اور بہت سے دیگر پہلو ایسے ہیں کہ کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں کی نگرانی سے غافل نہیں رہ سکتا۔یوں بھی امت مسلمہ کے اتحاد کا مطلب سیاسی حوالے سے ہے۔ اگر تمام اسلامی ممالک اپنی خارجہ پالیسیاں ایک دوسرے کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر وضع کریں تو اسلامی اتحاد کا خواب تعبیر پاسکتا ہے۔ یہ اتحاد عسکری اور اقتصادی حوالے سے بھی ہوسکتا ہے۔ بہرطور اسلامی اتحاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلامی ریاستیں اپنی سرحدوں کے منہ دوسرے مسلمانوں کے لیے کھول دیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو تصور کیجیے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کتنے کروڑ مسلمان داخل ہوجائیں گے!
اس وقت پاکستان امن وامان کی جس تشویشناک صورت حال سے دوچار ہے اس کی ایک بہت بڑی وجہ پاکستان افغان سرحد ہے۔ کل ہی ایک معاصر نے لکھا ہے کہ سو افغان مہاجر پاکستان سے واپس جاتے ہیں تو پانچ سو داخل ہوجاتے ہیں۔ ہماری ریاستی نااہلی ہے کہ آج پاکستان کے ہر گوشے میں افغان پائے جاتے ہیں۔ یہ جائدادیں بھی خرید لیتے ہیں اور ملازمتیں بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔لاکھوں کروڑوں کے پاس پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ موجود ہیں جو متعلقہ محکموں کی نالائقی ، لاپروائی اور کرپشن کا واضح ثبوت ہے۔
امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا یا ڈرون حملوں کے خاتمہ کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ۔یہ مسئلہ الگ جہتیں رکھتا ہے۔ افغانستان میں مستقبل کا منظرنامہ پاکستان کے لیے کسی صورت خوش آئند نہیں۔جو سادہ لوح پاکستانی ، افغان طالبان کی تحریک میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔اصل میں یہ پختون اور غیر پختون کشمکش ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ افغان طالبان کی ’’ اسلامی جدوجہد ‘‘ میں ازبک ،تاجک ،ترکمان اور ہزارہ کہیں دکھائی نہیں دیتے ؟ وہ بھی اتنے ہی پکے مسلمان ہیں جتنے پختون ! افغانستان میں پختون 48فیصد سے زیادہ نہیں۔1747ء سے لے کر ،جب احمد شاہ ابدالی موجودہ افغانستان کو دنیا کے نقشے پر لایا تھا 1979ء تک جب سوویت یونین نے شمال سے افغانستان پر حملہ کیا ،دو سوتیس سال کے دوران پختون ہی افغانستان کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔اس سارے عرصہ میں پالیسی سازی میں غیر پختونوں کا حصہ برائے نام رہا۔ سوویت یونین کے حملہ کے بعد افغانوں کی مدافعت شروع ہوئی تو اس میں احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم جیسے غیر پختون پیش پیش تھے۔آج کے افغان سیاسی پیش منظر پر غیر پختون اتنا نمایاں مقام حاصل کرچکے ہیں کہ اب افغانستان پر خالص پختون حکومت کا قیام ناممکن ہے۔مگر افغان پختون اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہے وہ پس منظر جو امریکی انخلا کے بعد والے افغانستان کو پُرامن دیکھنے سے قاصر ہے۔ طالبان یا دوسرے لفظوں میں پختونوں کی افتاد طبع ایسی حکومت کو برداشت نہیں کرے گی جس میں ازبکوں ،تاجکوں ،ترکمانوں اور ہزارہ کو بھی انصاف پر مبنی حصہ دیاجائے۔ دوسری طرف غیر پختون قومیتیں ایک بار پھر تاریخ کے اندھیرے میں ڈوب جانے کے لیے تیارنہیں۔مستقبل کے افغانستان میں باہمی خانہ جنگی اور قتل و غارت اسی طرح یقینی ہے جس طرح رات کے بعد سورج کا طلوع ہونا ۔چنانچہ پاکستان افغانستان سرحد افغانوں کے بلا روک ٹوک داخلے اور در اندازی کا مستقل دروازہ بنی ہی رہے گی۔ پاکستان اس سرحد سے صرف اسی وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب افغانستان میں ایک قانون پسند ، تعلیم یافتہ اور مہذب حکومت قائم ہوجائے جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔شمال کے تعلیم یافتہ افغانوں کے مقابلے میں جنوب کے افغان ایسے ہی ہیں جیسے لاہور کے تعلیم یافتہ شہری کے مقابلے میں نیلی بار کا اجڈ کسان !
شام اور عراق کی فتح کے بعد امیرالمومنین عمر فاروق اعظمؓ ایران کے ساتھ جنگ سے بچنا چاہتے تھے۔ چنانچہ کہا کرتے تھے کہ کاش ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہوجائے تاکہ ہم ان کی طرف جاسکیں نہ وہ ہماری طرف آسکیں۔یہ اور بات ہے کہ حالات و واقعات نے اس جنگ سے بچنے نہ دیا۔ یہی صورت حال افغان پاکستان سرحد کی ہے۔ کاش ایک دیوار درمیان میں کھڑی ہوجائے تاکہ وہ اپنے ملک میں رہیں اور ہم اپنے ملک میں !
پس نوشت۔ مغربی طاقتوں کے ساتھ ایران کا جو معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت ایران ایٹمی سرگرمیاں محدود کرکے 20فیصد تک افزودہ یورینیم کے ذخائر ناکارہ بنادے گا، جناب سید منور حسن نے ابھی تک اس پر احتجاج نہیں کیا اورعوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے نہیں کہا، قوم ان کی آواز کا انتظار کررہی ہے۔