ہم تین دوست بیٹھے تھے۔ یونیورسٹی میں تینوں اکٹھے تھے اس لیے ایک دوسرے کے ’’اندرونِ خانہ‘‘ احوال سے واقف تھے، اپنے مسائل پر ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے اور حل مانگتے تھے یا تجویز کرتے تھے۔ بھٹی نے اُس دن بھی وہی پرانی پٹاری کھول رکھی تھی۔ بیٹے ماشاء اللہ اس کے چار پانچ تھے۔ باعثِ اذیت اس کے لیے یہ تھا کہ دس بارہ جماعتیں پڑھنے کے بعد بریک لگ جاتی تھی۔ کسی کی کسی مضمون میں کمپارٹمنٹ آ جاتی تھی، کوئی پورا فیل ہو جاتا تھا،کوئی کالج میں داخلے لینے کے بعد پڑھائی میں عدم دلچسپی کا باقاعدہ اعلان کر دیتا تھا اور کوئی اگر فیل نہیں بھی ہوتا تھا تو آگے بڑھنے سے منکر ہو جاتا تھا!
اب تک تو جب بھی بیٹھتے تھے، یہی سوچتے تھے کہ کم از کم گریجوایشن تو کرلیں، مگر اُس دن ہم میں سے ایک کا میٹر بالکل پھِرا ہُوا تھا۔ اُس نے پوچھا، گریجوایشن، گریجوایشن کی جو ہم رٹ لگائے رکھتے ہیں، اگر دھکیل کر، مارکُٹ کر، لعن طعن کر کے، بہلا پھُسلا کر، گریجوایشن کر بھی لیں گے تو ظاہر ہے کہ اس سے آگے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہو گا۔ مگر کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ گریجوایشن کے بعد کیا کریں گے؟ اب تو ڈرائیور کا اشتہار دیا جائے تو بی اے، ایم اے کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ لفٹ بوائے اچھے خاصے ڈگری یافتہ ہیں! نائب قاصدوں نے اوپن یونیورسٹی کی وساطت سے ایم بی اے تک کر لیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا تم نے کبھی بچوں سے پوچھا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ آخر اُن کی اپنی خواہش بھی تو کچھ ہو گی؟ بھٹی نے اپنی اولاد کو ایک موٹی سی گالی دی اور کہا کہ بزنس کرنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں دکانیں کھول کر دو!
چوہدری کا میٹر اُس دن اچھا خاصا پھرا ہوا تھا۔ کہنے لگا، یار بھٹی! اللہ کا نام لو اور جو وہ چاہتے ہیں، انہیں کرنے دو! کاروبار چلا لیں گے تو کامیاب ٹھہریں گے، تم بھی ذمہ داری سے سبکدوش ٹھہرو گے، نہ چلا سکے تو شکوہ بھی نہیں کر سکیں گے اور یہ روز روز کی کِل کِل ختم ہو جائے گی!
بھٹی نے تین بیٹوں کو دکانیں ڈال دیں۔ ایک کو کھلونوں کی، دوسرے کو ریڈی میڈ گارمنٹس کی اور تیسرے کو سٹیشنری کی! پہلے دو نے اچھا خاصا کامیاب بزنس کیا۔ یوں سمجھیے اگر چوٹی پر پہنچنے کا مطلب دس ہے تو وہ کچھ ہی عرصے میں چھ تک پہنچ گئے۔ گریجوایشن کر کے کلرک بنتے (وہ بھی تب اگر کلرکی مل جاتی) تو دس میں سے مشکل سے چار تک پہنچ پاتے، تیسرا واقعی ٹیلنٹ رکھتا تھا۔ اس کی دکان کا محلِ وقوع بھی بہتر تھا۔ اُس کا وژن دور رس تھا۔ اس نے جنرل آرڈر سپلائی کا کام بھی شروع کر دیا۔ پانچ چھ سال بعد اُس نے ماں باپ کو حج کرایا۔ دس سال ہوئے تو شہر کے نواح میں اچھے خاصے رقبے پر مشتمل زمین خریدی، پھر ایک نسبتاً بہتر آبادی میں اپنے لیے بہت ہی مناسب مکان تعمیر کرایا۔ پھر ماں باپ کو اندرونِ شہر کی گھٹن سے نکالا اور ان کے لیے الگ رہائش گاہ بنوائی۔ چند ماہ پہلے معلوم ہوا کہ بزنس ٹرپ پر یورپ گیا ہوا ہے۔
یہ صرف ایک مثال ہے! کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بچوں پر، کیریئر کے حوالے سے، ماں باپ کو اپنی خواہش مسلط نہیں کرنی چاہیے! لڑکا فائن آرٹس میں جانا چاہتا ہے، باپ اسے ڈاکٹر بنانے پر مُصر ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ڈاکٹر بن نہیں پاتا اس لیے کہ زبردستی کے سودے کم ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ فائن آرٹس کا کیریئر بھی ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے پھسل جاتا ہے۔ بیٹی کی دلچسپی اکائونٹنسی میں ہے مگر ماں انجینئر بنانے پر مُصر ہے۔ بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے خبط نے کتنے ہی ذہین طلبہ اور طالبات کی زندگیاں بدمزہ کی ہیں! کتنے ہی بچے جو باکمال بزنس مین بن سکتے تھے، ماں باپ کی احمقانہ ضد کے سامنے بے بس ہو کر گریجوایٹ بنے۔ پھر ملازمت کے لیے در در کے دھکے کھاتے رہے۔ آخر کار کلرکی ملی۔ ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح مشقت کرتے رہے۔ بہت تیر مارا تو ریٹائرمنٹ سے ایک دو سال پہلے نام نہاد افسری ملی!
کیریئر پلاننگ، ہمارے ہاں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ناپید ہے۔ ماں باپ کو پروا ہی نہیں کہ بچوں کا ذہنی میلان کس طرف ہے۔
باپ نے اپنی شادی سے پہلے ہی خواب دیکھ لیا تھا کہ اُس کا بیٹا ڈاکٹر بنے گا۔ اب وہ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بیٹے کو قربانی کا بکرا بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اساتذہ بے نیاز ہیں۔ اس امر کا تصور ہی نہیں کہ استاد طالب علم کے والدین کو طلب کرے، اُن سے بچے کے کیریئر اور ذہنی میلان پر گفتگو کرے اور پھر تینوں مل کر، طالب علم سے بات چیت کریں اور یوں اس کے کیریئر کا فیصلہ اس کی خواہش اور صلاحیت کے مطابق ہو!
ہر تحریر میں نصیحت کی جاتی ہے اور ہر تقریر میں یہ قولِ زریں دہرایا جاتا ہے کہ ع
کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی!
مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ کسبِ کمال صرف اُس شعبے میں ہوتا ہے جو دل اور دماغ دونوں کو پسند ہو! ایک غریب آدمی کا بچہ چاہتا ہے کہ صوفہ بنانا سیکھے۔ یہ کام اُسے پسند ہے۔ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ پندرہ بیس سال بعد اُس کی اچھی خاصی بڑی ورکشاپ ہو، بیس پچیس کاریگر اُس کے ملازم ہوں، صوفوں کے آرڈر پر آرڈر آ رہے ہوں اور وہ ورکشاپ کے ایک کونے میں، شیشے کی دیواروں کے پیچھے، اپنے باعزت دفتر میں بیٹھا سب کی نگرانی کر رہا ہو۔ کسبِ کمال یہ ہے کہ وہ صوفے کو دیکھتے ہی جان جاتا ہے کہ اس کا ڈھانچہ کتنا مضبوط ہے، لکڑی کس قبیل کی لگی ہے اور کپڑا یا چرم لگانے والے سے کہاں چوک ہوئی ہے۔ اگر باپ صوفہ بنانے کے فن کو حقارت سے دیکھتا، اُسے دو گالیاں دیتا، تین تھپڑ رسید کرتا اور بارہ جماعتیں فیل یا پاس کرواتا تو وہ آج صاحب کو چائے پلا کر میز صاف کر رہا ہوتا!
ہماری عمر کے افراد کو، جو قیامِ پاکستان کے آگے پیچھے اِس دنیا میں آئے، یاد ہو گا کہ اُن دنوں مسجدوں میں پانی کے پائپ اور ٹونٹیاں نہیں ہوتی تھیں۔ مٹی کے کوزے ہوتے تھے۔ اِن کوزوں کا دہانہ تنگ ہوتا تھا۔ یہ وضو کے لیے اور نہانے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔ وہ زمانہ حد درجہ کفایت شعاری کا تھا! بستیوں میں ماچس کی ایک تیلی بچانے کے لیے سلگتا ہوا انگارہ پڑوسن کے چولہے سے، دھات کے چوڑے ٹکڑے پر رکھ کر لایا جاتا تھا! لالٹین کا شیشہ ٹوٹتا تھا تو ٹوٹا ہوا ٹکڑا، آٹے سے یا سریش سے دوبارہ جوڑا جاتا تھا۔ چائے کی پیالی ٹوٹتی تھی تو پٹھان کاریگر اُسے ٹانکا لگا کر دوبارہ قابلِ استعمال کر دیتا تھا۔ اسی طرح کوزہ ٹوٹ جاتا تو اسے مسجد سے باہر نہیں پھینک دیا جاتا تھا۔ اُس پر چمڑے کا پیوند لگتا تھا۔ بزرگوں سے ایک ایسے ماہر کاریگر کے بارے میں بھی سنا، جو پیوند لگاتے وقت، سوئے کو کوزے کے اندر سے واپس بھی لے آتا تھا۔ اُس کی مہارت کا چرچا اتنا ہوا کہ علاقے کے حاکم نے دربار میں بلایا، اُس کے فن کا مظاہرہ دیکھا اور اسے انعام و اکرام سے نوازا۔ ہمیں کسبِ کمال کا بنیادی فلسفہ ہی معلوم نہیں! کسبِ کمال فقط یہ نہیں کہ آپ آنکھ کا آپریشن کرنے کے ماہر ہیں یا فائیو سٹار ہوٹل کی چین کامیابی سے چلا رہے ہیں یا لوہے کے ایک کارخانے سے دس کارخانے کما لیتے ہیں یا اے لیول طلبہ کو ریاضی یوں پڑھاتے ہیں کہ سب کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کسبِ کمال یہ بھی ہے کہ آپ فرش پر ٹائلیں یوں لگائیں کہ دیکھنے والا آپ کے ہاتھ کی صفائی پر قربان ہو جائے۔ فرنیچر ایسا بنائیں کہ استعمال کرنے والا تہہ خاک جاسوئے مگر لکڑی خراب نہ ہو! کپڑا ایسا سیئیں کہ درجنوں سفیر یورپ واپس جا کر بھی ملبوسات آپ ہی سے سلوائیں اور باغبان ایسے ہوں کہ لوگ آپ کے پیچھے پیچھے پھریں!
رہی یہ بات کہ ہاتھ سے کام کرنے والوں کی ہمارے ہاں عزت نہیں اور یہ منافق معاشرہ انہیں حقارت سے دیکھتا ہے تو آپ اس معاشرے پر تین حرف بھیجئے۔ یہ اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ یہ تہذیب اپنے خنجر سے خود ہی خود کشی کر رہی ہے! یہاں اگر بڑھئی کی، موچی کی، راج کی، درزی کی عزت نہیں تو پی ایچ ڈی استاد کی تکریم کہاں ہے؟ یہاں تو تنگ ذہن والا سیکشن افسر، باہر سے پڑھ کر آنے والے پروفیسر کو لوہے کے چنے چبوا دیتا ہے اور شام کو اپنے بے ضمیر ساتھیوں میں بیٹھ کر فائلوں پر حاصل کی ہوئی فتوحات کے قصے، ہنس ہنس کر سناتا ہے! جن ملکوں نے ترقی کی ہے وہاں ہائوس آف کامنز کے ممبر کے ساتھ والے گھر میں خاکروب رہتا ہے اور وزیر اعظم کی بیٹی، پلمبر کے بیٹے سے شادی کرے تو کسی کے پیٹ میں مروڑ نہیں اُٹھتے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔