ہم نے دیکھا ہے کہ پرانے مذاہب کی بجائے جن لوگوں کے اس نئے دین کو مان لیا جس کا کوئی نبی نہیں ہے ، جس مذہب کو کوئی تبلیغی مرکز نہیں ہے ، وہ دنیا میں فلاح پا گئے ،۔
میں سرمایہ دارانہ نظام کی بات کر رہا ہوں ،۔ جس جس نے اس مذہب کی عبادات یعنی کمپنی بنا کر بزنس کیا ، اس اس کو نیکیوں کی بجائے کرنسی نصیب ہوئی ، جس جس نے اس مذہب میں چلے کاٹے یعنی کہ ڈپلومے اور ڈگڑیاں لیں ، اس اس کو دنیا میں اعلی مقامات ملے ،۔
مذہب عالم ، کی اپنی اپنی عبادات ہیں ، چلے ہیں ، وظائف ہیں ،۔
کسی مذہب میں عبادات کرنے پر ثواب ملتا ہے ، ساتھ میں نیکیاں ملتی ہیں
ان نیکیوں کے اکاؤنٹ رب کے پاس ہوتے ہیں ،۔
کسی کو علم نہیں کہ اس کی کتنی نیکیاں ہیں
اور حقوق العباد
کی کوتاہیوں سے کتنا قرض چڑھ چکا ہے اور نیکیوں اور بدیوں کے توازن کا حساب کسی کو معلوم نہیں ،۔
کسی مذہب میں مکت ہوجانے کا بتایا جاتا ہے
لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس جنم کی ساری محنتوں کے باوجود بھی وہ مکت ہوا کہ نہیں ،۔
کیپٹل ازم میں یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں ، فوراً کرنسی ملتی ہے ،۔
اس دین کے عبادت گزار سارا دن کام نامی عبادت کرکر کے نئی نئی چیزیں بناتے رہتے ہیں ، ان عبادت گزاروں کو اس چیزیوں کی عوض میں بھی کرنسی ملتی ہے اور اس کرنسی سے عبادت گزار لوگ دوسروں کی عبادت سے بنی چیزیں خرید کر استعمال کرتے ہیں اور زندگی سے لطف لیتے ہیں ،۔
خلوص نیت سے کہ گئی عبادات سے بنی ہوئی کاریں ٹرک الیکٹرک کا سامان زبان بے زبانی سے اپنے عبادت گزروں کی کار گردگی کا اعلان کر رہا ہوتا ہے ،۔
منافق لوگ جو کہ اس دین میں پورے پورے داخل نہیں ہوتے ، یا کہ ابھی پرانے ادیان سے لپٹے ہوئے ، اس دین کیپٹل کے مزے لینا چاہتے ہیں ،۔
ان کی عبادات میں ان کی منافقت جھلکتی ہے ،۔
ایسے منافق لوگوں کی بنائی ہوئی دوائیاں بھی جعلی ہوتی ہیں، مشینیں بھی ناپائیدار ہوتی ہیں ،۔ ان کے کھانے کی چیزوں میں بھی ملاوٹ ہوتی ہے ،۔ اور کے پینے۔ کے پانی تک صاف نہیں ہوتے،۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی منافق ہیں ،۔دین میں پورے پورے داخل نہیں ہوئے ہیں ،۔
اؤ یارو ، دین میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور کرنسی کماؤ ،۔
اے جہاں مٹھا
تے
اگلا کسے نہ ڈھٹھا