کاروان حیات اور تہذیب ۂ انسانی
اکثر و بیشتر ارتقا کے انکاری بڑے وثوق سے ارتقا کا مزاق اڑاتے ہوۓ انسان کو بندر کی اولاد کہتے ہیں یہ جملہ بذات خود ایک دلیل ہے کہ انسان کس قدر ذہنی خرافات کا حامل ہے انسان بندر کی اولاد ہرگز نہیں نا آج تک سائنس نے ایسا کہا ، موجودہ ارتقا یافتہ انسانی نسل انتھروپوئڈ ایپ کی ایک لڑی ہے جبکہ اس کی دوسری لڑی مانس ہے مانس کی چار قسمیں اب بھی موجود ہیں گبن ، چمپائزی ، گوریلا اور نگوتان
موجودہ ارتقا یافتہ انسان اور مانس کا جد امجد ایک ہی ہے دن با دن بڑھتی ترقی اور دریافت فاسلز سے نظریہ ارتقا مضبوط ہوتا جا رہا انسان نسل مانس سے کب جدا ہوئی اسکا حتمی فیصلہ سائنس فلوقت نہیں کر سکی تاہم بہت سی تحقیقات سے جو نتائج اخذ ہوۓ ہیں ان کے مطابق راما مانس انسانی تاریخ کا آغاز ہے جن سے آج موجودہ ہومو سیپیئن یعنی ایک با شعور انسان وجود میں آیا . راما مانس سے مختلف مراحل میں ارتقا پاتے جو پہلا کھڑا انسان وجود میں آیا وہ ہومو ارکٹس تھا (نوٹ : راما مانس سے اس سیدھی کمر والے کھڑے انسان تک کا دورانیہ کئی لاکھ سالوں پر محیط ہے)
یہ پہلا انسان تھا جس کا دورانیہ آج سے لگ بھگ 30 لاکھ سال قبل بتایا جاتا ہے چونکہ یہ شعوری طور پر اس نے مکمل ابھی ارتقا نہیں پایا تھا البتہ یہ اوزار ساز تھا آگ استعمال کرتا تھا شعوری ارتقا کا یہ سفر 6 لاکھ سال قبل تکمیل کو پہنچا جب ایک کھڑا باشعور انسان وجود میں آیا
(یہاں ایک بات ذہن نشین کریں جو پہلا با شعور ہومو سیپئین تھا اسکی مزید شاخیں تھی جس میں نی اینڈرتھال انسان ، کرومیگنان انسان ،چلاس انسان ،شنگھاؤ انسان شامل ہیں اور آج فوسلز سے یہ ثابت ہو چکا ہے مارکیٹ میں اینڈرتھال انسان پر بہت سی کتابیں موجود ہے)
انسانی تہذیب
جیسے جیسے ارتقا کا عمل آگے بڑھتا گیا انسان تہذیب اختیار کرتا گیا مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ عمل رک گیا قطعا نہیں یہ عمل آج بھی جاری و ساری ہے اور ہمیشہ رہے گا
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہومو سپین ان دونوں جانداروں ہومو اریکٹس اور اینڈرتھال میں کس سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں؟ اس کا جواب ہم جدید ارتقائی سائنس کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی تعریف کیسے کی جائے گی، انسان اور اس کے آباء واجداد میں وہ کون سا فرق ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ ہمارا نزدیکی جدِ امجد کون تھا، ہومو ایریکٹس یا نیندرتھل؟ اور ہمیں کون سی چیز ان سے ممتاز کرتی ہے۔
انسانی دماغ انسان کا سب سے پیچیدہ عضو ہے جس کی وجہ سے ہمارے پاس ذہانت، سوچنے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت ہے، ہم بہترین طریقے سے دو ٹانگوں پر حرکت کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ہمارا بہتر سماجی رویہ ہمیں باقی ہومینڈ جانداروں سے ممتاز کرتا ہے اور انہی خصوصیات کی وجہ سے کرہ ارض پر ہماری حکمرانی ہے۔
انسان، چمپنزی اور ہومو ایریکٹس کے جسمانی خدوخال کے تجزیے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کے وہ کون سی خصوصیات تھیں جن کے ارتقاء پذیر ہونے سے انسان اور دیگر ہومینڈ جانداروں کے درمیان اتنا واضح فرق آیا، ہومو اریکٹس کے فوسلز سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ان میں بھی کچھ ایسی ہی خصوصیات تھیں جیسی آج کے انسان میں موجود ہیں
حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک نینڈرتھل کا مکمل ڈھانچہ دریافت کیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کے نینڈرتھل میں بھی اپنے مردے کو ٹھکانے لگانے کا رواج شروع ہو چکا تھا، نینڈرتھل کی قبر سے کچھ اوزار بھی ملے ہیں جو مرنے والے کے ساتھ ہی رکھ دیے جاتے تھے، نینڈرتھل کے ڈی این اے پر ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ نینڈرتھل میں فوکس پی ٹو نامی جین پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان بولنے اور زبان و کلام کے قابل ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ نینڈرتھل بھی نہ صرف بول سکتا تھا بلکہ ایک دوسرے کی بات چیت سمجھ بھی سکتا تھا مگر ہماری طرح موثر طریقے سے نہیں کیونکہ نینڈرتھل کے گلے کے ڈھانچے نے اس کی بات چیت کو محدود کر دیا ہوگا، سائنس دانوں نے وہ خول بھی دریافت کر لئے ہیں جس میں نینڈرتھال رنگ اور پگمنٹ رکھتا تھا، نینڈرتھل بھی اپنی غاروں کو پینٹنگ سے آراستہ کرتے تھے۔
قدیم انسانی معاشرہ قبائل کی صورت میں تقسیم تھا اور ان میں مچھلیاں پکڑنا شکار کرنا مختلف ذریے سے خوراک کا بندوبست کرنا آلات بنانا پتھر کو تراشنا اپنے جسم پر لباس کو سامان کو حتمی بنانا جو کہ جانور کی کھال سے تیار ہوتے تھے پتھر کا زمانہ کے اختتام پر ایک انقلاب رونما ہوا، جو برف کے زمانے کے جانے کی وجہ سے ہوا اس انقلابی زمانے میں کاشتکاری کا ہنر متعارف ہوا، جس میں سوت کاتنے اور بننے کا عمل شروع ہوا، مٹی کے برتن، تیرکمان بنانے اور جانوروں سے کام لینے کا سلسلہ شروع ہوا، کاشتکاری کے فن میں مزید بہتری آنے کی وجہ سے خوراک کی پیداوار اور فراہمی میں اضافہ ہوا ، اور فارغ وقت دوسرے فنون کو جاننے کے لئے استعمال کیا جانے لگا
چھ ہزار سال پہلے پتھر کے آلات کی جگہ تانبے کے آلات نے لے لی۔ تانبے اور ٹین کو ملا کر کالتی بنائی گئی جو زیادہ لچک دار دھات ہوتی ہے۔ لوہے کو پگھلانے کا ہنر تین ہزار سال قبل مسیح سے پہلے شروع ہوا۔ اب خوراک چونکہ زمین سے پیدا ہورہی تھی اس لئے لوگوں نے مل جل کر رہنا شروع کردیا جس سے آبادی گھنی ہوتی گئی
تاریخ دانوں میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ زمین پر زراعت کسی ایک جگہ شروع ہوئی یا بہت سے مقامات پر ہوئی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے شام کے شمال میں ایوموریہ کے مقام پر یہ دریافت کیا کہ تقریباً نو ہزار پانچ سو سال پہلے یہاں اچانک ایک تبدیلی رونما ہوئی تھی۔ زمین کی گہرائی میں کھودتے ہوئے انہوں نے یہ دیکھا کہ مٹی کا رنگ بادامی سے کالا ہوگیا تھا جس میں کسی پودے کے ٹکڑے شامل تھے۔ جس سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ اس سے پہلے کی بستی پر کاشتکاری کرنے والا گاؤں تعمیر ہوا تھا۔
مغربی مؤرخوں کے مطابق مصر اور میسوپوٹامیہ تہذیب کے اولین گہوارے تھے۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ایک زیادہ نفیس قسم کا معاشرہ ہندوستان میں ابتدائی عہد میں موجود رہا ہو۔ ریگ وید میں بہت سے اشعار “سرما” کا حوالہ دیتے ہیں جب سورج نصف النہار پر تھا اور سورج کے برج حمل میں داخل ہونے کی ابتداء تھی۔ یہ حالات سات ہزار سال قبل مسیح کے فلکیات سے ملتے جلتے ہیں
ہڑپہ اور موہنجوڈارو کی کھدائی سے فنی طور پر ایک زیادہ ترقی یافتہ تہذیب کے باقیات ملتے ہیں، جو تین ہزار سال قبل مسیح میں پائی جاتی تھی۔ اس کے شہر باضابطہ گلیوں سے منسلک تھے، جن میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب اور غسل خانوں کا انتظام موجود تھا۔ اس کے باشندے گندم اور جو کھاتے تھے اور کپاس سے بنے ہوئے کپڑے پہنتے تھے از اختمام یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانی تہذیب اور ارتقا کا ایک بہت اہم رشتہ جیسے جیسے وقت کے ساتھ ساتھ انسان میں شعور آتا گیا انسان تہذیب اختیار کرتا گیا
گوگل کے تعاون سے
تحقیق ترمیم اضافہ – بشر مومن
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“