9 نومبر 2019 کے دن صرف بابا گرونانک ک 550 ویں جشن کا آغاز ہی نہیں بلکہ اس خطے کو امن پیار محبت اور بھائی چارے کی جانب گامزن کرنے میں پہل کرنے کا دن بھی تھا۔ یہ پہلا وہ واحد موقع تھا جب سرحد کے دونوں جانب حقیقی معنوں میں خوشیاں منائی گئیں اور دو مختلف مذاہب لیکن ایک پس منظر کے لوگ بغل گیر ہوئے جو ایک وقت میں پروپیگنڈہ کے باعث ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ کہتے ہیں مذہب انسانوں کو پستی کی طرف دھکیلتا ہے اور جدت سے دور کرتا ہے لیکن یہاں ان دو اقوام کو متحد کرنے والا مذہب ہی ہے جس کے باہمی عزت و احترام نے ایک دوسرے کو ایسا بھائی بھائی بنا دیا کہ وہ لوگ جو سرحد کے پاس جانے سے بھی ڈرتے تھے اب ایسی شاہی انداز مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ کسی نے آج تک نا دیکھا نا سنا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ مذہب میں نہیں مذہب کے ماننے والوں میں ہے۔ کشمیریوں کے بعد جس اہم قوم کی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے وہ سکھ ہیں، جن کا مزیب قدرے نیا لیکن مضبوط بنیادیں رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی تک اپنی مذہبی اقدار کو اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں۔ سکھ چاہے ترقی یافتہ ممالک کے ہوں یا انڈین پنجاب کے کسی پسماندہ گاوں کے رہائشی مذہبی رسومات برابر کی تندہی سے انجام دیتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب انڈیا اپنے زیر انتظام علاقوں کو متحد اور مستقل زیر تسلط کرنے میں دن رات مگن ہے یہ ایونٹ اس کی توقعات کے برعکس نتائج لایا اور وہ بھی صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں نا چاہتے ہوئے بھی حکومت ہند کو وہ سب کرنا پڑا جو پاکستان چاہتا تھا کیونکہ جنگ کا جواب جنگ سے دیا جا سکتا ہے لیکن محبت کا جواب جنگ میں دینا کسی بھی طرح ممکن نہیں۔ مجبورا سپاٹ اور تاثرات سے عاری حکومت ہند اس پراجیکٹ میں نا صرف شامل ہوئی بلکہ سکھوں کو اعتماد میں لینے کے لئے مودی کو خود سرحد تک اور انڈین پنجاب کے وزیر اعلی کو پاکستان آنا پڑا۔ یہ وہ قوم ہے جو پاکستان سے کرکٹ تک کھیلنے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی اور ایک وقت تھا کہ ان کے سابق وزیر اعظم اور موجودہ وزیراعلی پاکستان کے اندر بیٹھے تھے تاکہ اس ایونٹ میں شامل ہوا جائے۔
پاکستان کے لئے بلاشبہ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے کہ جہاں پراکسی وارز اور نفرت پھیلا کر کامیابی حاصل کرنے والے تمام حربے ناکام ہوگئے تھے صرف محبت کے پیغام نے نا صرف ہندوستان کے اندر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی پاکستان کا ایک الگ ہی چہرہ دکھایا جو صرف محبت کرنا جانتا ہے اور وہ بھی اپنے اس ہمسائے کی عوام سے جو ہر موقع پر ان کو نیچا دکھانے کو تیار بیٹھی ہے۔
سکھ لوگ عمومی طور پر صاف گو ہوتے ہیں اور کھل کر بات کرتے ہیں۔ 9 نومبر کے بعد سوشل میڈیا پر شاید ہی کسی سکھ فرد کا پاکستان مخالف کمنٹ دیکھا ہو یا کسی نے اس کوشش میں سازش ڈھونڈنے کی کوشش کی ہو۔ ہر طرف عمران خان اور حکومت پاکستان کے لئے دعائیں نیک خواہشات اور مستقبل کے بھائی بھائی کے نعرے تک لگ گئے۔ یہ وہ جنگ ہے جو صرف ایک سال میں پاکستان نے جیتی اس کا سہرا بلاشبہ نجوت سنگھ سدھو کو جاتا ہے جس نے پاکستان آمد پر اس راہداری کے کھولنے کی درخواست کی، پاکستانی تھنکرز نے پوری سوچ و بچار کے بعد اس سمت یک طرفہ کوشش کا آغاز کیا۔ یہ ایک انوکھا امتحان تھا جو حکومت ہند کے سر پر آن پڑا تھا جس سے نا جان چھڑائی جاسکتی تھی اور نا ہی ماننے کو دل چاہتا تھا۔ سدھو ایک زندہ دل بندہ ہے جس نے اس پراجیکٹ کے آغاز سے لے کر اب تک نا صرف ہندوستانی تنقید کا جواب دیا بلکہ اپنی پوری کوشش سے ایسی عوامی رائے عامہ ہموار کردی کہ انڈیا کے پاس اس کی بات ماننے کے سوا کوئی دوسرا جواز باقی نا بچا۔ سیانے لوگ تو کہتے ہیں کہ بے شک سدھو ابھی ایک کچا پکا سیاستدان ہے لیکن مستقبل میں اپنے وزیر اعلی بننے کی راہ تقریبا ہموار کرچکا ہے۔ یہ انڈین پنجاب اور مرکزی سیاستدانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جس نے اس نووارد سیاستدان کے لئے تحفظات بھی پیدا کردیئے ہیں کیونکہ انڈیا کی یہی تاریخ ہے۔
پاکستان میں اس پراجیکٹ کو حکومتی فوجی اور عوامی تینوں سطح پر بھرپور حمایت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ کسی مذہبی جماعت نے بھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ ایک غیر مسلم قوم کے ساتھ اتنی الفت کیوں؟ کچھ وقت تک تو لگا ہی نہیں کہ یہ ہماری ہی قوم ہے جس نے اپنے وزیر اعظم کو گیارہ ربیع الاول کو سکھ روپ دھارنے اور بارہ ربیع الاول کو سیرت کانفرنس میں خطاب کرنے کی اجازت دے دی بلکہ خوش بھی ہے۔ امید ہے یہ رویہ قائم و دائم رہے تاکہ یہاں بھی مذہبی آزادی ممکن ہو پائے اور ایک دوسرے پر اعتراضات اٹھانے کی بجائے اپنی اپنی عبادات اور رسومات پر توجہ دیں۔ سائنس تو ہمارا مسئلہ ہے ہی نہیں کہ مغرب اتنی ایجادات کرچکا ہے کہ ہم بطور استعمال کنندہ ہی ان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔
کرتار پور کا 550 واں جشن ہمارا پہلا جشن ہم آہنگی ہے جس میں کچھ ناہنجار لوگ سازشیں تلاش کررہے ہیں جبکہ ہماری دلی تمنا ہے کہ اگر یہ سازش بھی ہے تو ایسی سازشیں ہوتی رہنی چاہیں تاکہ نفرتیں راوی برد ہوسکیں اور لوگ ایک دوسرے سے مل سکیں۔
اس منصوبے میں یہاں کے مقامی زمینداروں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا اور اس منصوبے کے لئے تقریبا 1500 ایکڑ زمین حکومت کو دی لیکن ان کو ابھی تک ادائیگیوں کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہوا۔ امید ہے حکومت ان سے کم قیمت میں زمین لینے کی بجائے رائج قیمتوں کے حساب سے ہی ادائیگی کرے گی تاکہ کسی کی حق تلفی نا ہوسکے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...