اعتراف اپنی خطاؤں کا بھی کرتا ہی چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا میرے بعد
آج اس شعر کے خالق کرار نوری کا یومِ وفات ہے۔ کرار میرزا (کرار نوری) 30 جون 1916 کو جے پور میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد راولپنڈی اور کراچی میں مختلف اخبارات و جرائد کے علاوہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ ان کا مجموعہ کلام ’’میری غزل‘‘ ان کی زندگی میں اور نعتوں کا مجموعہ ’’میزانِ حق‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ انہوں نے 8 اگست 1990 کو کراچی میں وفات پائی۔
ان کے چند اور شعر
ہم کو بھی سر کوئی درکار ہے اب سر کے عوض
پتھر اک ہم بھی چلا دیتے ہیں پتھر کے عوض
کون ہو سکتا ہے آنے والا
ایک آواز سی آئی تھی ابھی
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہو گئے
میرے لہجے ہی سے تنہائی کی گونجیں چھلکیں
مَیں نے چاہا تھا تماشا نہ بناؤں خود کو
بڑے خلوص و متانت سے آج ٹوٹ گیا
وہ ایک ربط جو باہم رہا انکھوں میں
راہِ وفا میں ہوا کبھی محسوس
ہاتھہ پاؤں میرے مجھہ سے بات کرتے ہیں
یہ غلط ہے شراب کی تعریف
اس کا ذہنوں پہ راج ہوتا ہے
صرف حدت شراب دیتی ہے
باقی اپنا مزاج ہوتا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“