پختونوں کے کڑرانی گروہ میں وہ تمام قبائیل شامل ہیں جن کا شجرہ نسب قیس عبدالرشید سے نہیں ملتا ہے ۔ نعمت اللہ ہراتی نے کڑرانی گروہ کا ذکر کیا ہے ۔ نعمت اللہ ہروی کو کڑرانی گروہ کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں ۔ اس لیے اس نے کرانی گروہ کے اکثر قبائیل کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان قبائیل کی تعداد قیس عبدالرشید کی نسل سے تعلق رکھنے والے قبائیل سے کم نہیں ہے ۔ چونکہ یہ قبائیل قیس کی نسل سے تعلق نہیں رکھتے ہیں اس لئے انہیں افغان تو کہا جاتا ہے مگر پٹھان نہیں کہا جاتا ہے ۔
کرانی گروہ کے بارے میں دیو ملائی داستان نعمت اللہ ہراتی نے لکھی ۔ اس کا کہنا ہے کہ اڑمر قبیلے کے دو آدمیوں کو ایک بچہ اور ایک بالٹی ملی ۔ ایک نے بچہ دوسرے نے بالٹی لے لی ۔ چوں کہ پشتو میں بالٹی کو کڑراہی کہتے ہیں ، اس لئے اس نسبت سے بچے کا نام کرانی رکھ دیا اور بعد میں یہ کلمہ کڑلان ہوگیا ۔
عہد بنگیش میں مفتی ولی اللہ فرح آبادی لکھا ہے کہ یہ بچہ سیّد تھا ۔ ایک دن امرالدین اورمڑ کا باپ شکار شکار پر جارہا تھا ، اس کو ایک سیّد زادہ پڑا ملا ۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے کو سادات میں شمار کرتے ہیں ۔ شیر محمد گنڈا پور کا کہناہے کہ کڑلان کے نسب میں بڑا اختلاف ہے ، کڑانی گروہ کے بڑے گروہ لاڑکان کا کہنا ہے کہ کڑران کے باپ کا نام سیّد قاف تھا اور اس کے نسب امام حسین تک پہنچتا ہے ۔ دوسرے گروہ خٹک کا کہنا ہے کہ کڑرانی کے باپ کا نام بیان تھا اور وہ اس کا نسب سڑبن تک پہنچاتے ہیں ۔
یہ کلمہ کڑران علاوہ کڑلان کی شکل میں ملتا ہے اور اس کی اصل کران ہے اور دوسرے سب اس کے معرب ہیں ۔ یہ کلمہ برصغیر میں کرن آیا ہے اور اس کے معنی روشن و درخشاں کے ۔ یہ کرشن کے القابوں میں سے ہے ۔ کرشن وشنو کے اوتاروں میں سے ہے اور وشنو سورج کی نمائندگی کرتا ہے ۔ یونانی اپولو یعنی سورج دیوتا کو کارنیوس کے نام سے بھی پکارتے تھے ۔ ابو الغازی لکھتا ہے کہ تاتاریوں کی روایت ہے جس کے مطابق اغوز کے بڑے لڑکے کا نام کین یعنی سورج تھا ۔
اس بالاالذکر بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کین ، کرن ، کڑان ، کڑلان اور ہم معنی الفاظ ہیں ۔ جس کے معنی سورج کے ہیں اور قدیم زمانے میں سورج کی پوجا کرنے والے وسط ایشیا سے برصغیر تک پھیلے ہوئے تھے ۔ اور یقیناًیہ کڑانی گروہ قدیم زمانے میں سورج کی پوجا کرتے تھے اور خود کو سورج کی نسل سے سمجھتے تھے اور اسی نسبت سے کڑارنی یا کڑلانی پکارے جاتے تھے اور مسلمان ہونے کے بعد اس وہ حقیقت کو بھلا بیٹھے ۔ یہ لوگ غالباً بعد میں مسلمان ہوئے ہیں ۔ اس لئے یہ بعد میں پختونوں کی نسلی وحدت میں شامل کئے گئے اور انہیں پختون قومیت میں شامل کرنے کے لئے کڑانی وجہ تسمیہ کے فسانے گھڑے گئے اور یوں کڑانی یا کڑلانی کوان کا مورث اعلیٰ بنا کر پیش کیا گیا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...