ویسے اس کا نام تو کچھ اور تھا ۔۔۔مگر اسے لوگ کاروباری کہتے تھے ۔۔۔وجہہ تسمیہ ؟۔۔۔وہ ہر قسم کا کاروبار کرتا ۔۔ہمیشہ کہتا ،،مجھ سے خوشیاں خریدو،،۔۔مجھ سے غم خریدو،،۔۔۔میں ہر چیز بیچتا اور خریدتا ہوں ۔۔۔بغیر حلال و حرام کی تمیز کیے ۔اس کا مقولہ تھا ،،محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے ۔۔۔اس کے آگے ٹکڑا بڑھا دیتا ،محبت یعنی پیسے کی محبت اور جنگ مطلب کاروباری جنگ !!۔تعلقات و رشتے داری اس کے نزدیک کتابی باتیں ۔۔ایک ہی دھن،پیسہ کمانا۔جس سے ملے ،جہاں سے ملے ۔۔۔مغلظاتی زبان اور کاروباری ذہنیت کی وجہ سے اس کے کوئی منہ نہیں لگتا ۔۔سوائے صدیق کے ۔
اس کے بچپن کا دوست جس نے اس کی زندگی کے نشیب و فراز دیکھے تھے ۔۔اسے برملا ٹوکتا ۔اس کی حرکتوں پر انگشت نمائی کرتا ۔مگر پتا نہیں کیوں وہ اس کے آگے چپ سادھ لیتا ۔۔۔یا زیادہ سے زیادہ کوئی عذر لنگ یا لایعنی جواز پیش کر دیتا ۔
صدیق کہتا ،،کیا کروگے اتنی دولت اکٹھی کرکے ؟
وہ خلا میں گھور کر جواب دیتا ۔
،،مجھے اپنے باپ سے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ انہوں نے میرے لیے کچھ نہیں کیا !۔۔میرے بچے مجھے یہ نہ کہیں ،۔۔میں بچوں کے لیے اتنا چھوڑ جاؤں کہ ،سات پشتیں عیش کرے !!
دو بچے ۔۔۔بہت ہوگیا ان کے لیے !!۔۔میں تو یہ کہوں ،،تم دولت نہ چھوڑ اچھے وارث چھوڑو،،
،،میں دونوں چھوڑوں گا ۔۔،،وہ سینہ پھلا کر کہتا ۔صدیق اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ۔
اسکریپ میں لوہے کے ساتھ تانبا پیتل سمیٹ سماٹ ٹرک میں لوڈ کرنا ،ایک فلیٹ کئی افراد کو الاٹ کرنا ،قرض دے کر ۔۔غیر منقولہ ہتھیانا،اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔۔۔بڑھ چڑھ کر نپلامی میں یہ کہہ کر بولی لگانا کہ ،،میں کبھی بازی نہیں ہارتا ۔۔۔اور وہ ہارا بھی نہیں ،قسمت اس پر مہربان جو تھی ۔
دونوں بچے جوان ہوچکے تھے ۔۔پچیس سالہ جوان اپنی نوخیز بہن کو ہوٹلوں اور نائب کلبوں میں لیے گھومتا ۔۔۔دونوں مفت کی دولت لٹاتے ۔۔باپ ہر نفع بخش ڈیل پر بڑے نوٹوں کی گڈی دونوں کی جانب اچھالتے ہوئے کہتا ،۔۔۔
،،لو،عیش کرو۔،،
ماں احتجاج کرتی ۔۔،،یہ کیا کررہے ہو ؟،،
کرخت لہجے میں جواب ملتا ۔
،،میں کما کس لیے رہا ہوں ؟،،
،،یوں لٹانے کے لیے ؟؟،،
،،ہم دو ،ہمارے دو،،۔۔پانچواں کیوں حصے دار بنے۔
کبھی برملا اظہارِ کرنے پر ڈانٹ پھٹکار سے چپ کرادی جاتی ۔۔اس اجٹ سے کون بحث کرے ۔۔عیش وعشرت کے ساماں ہوتے ہوئے بھی اسے سکؤن نہیں تھا ۔۔رنج سہتے سہتے خاک کا پیوند ہوگئی ۔
بچے اور آزاد ہو گئے ۔۔۔رات رات بھر غائب رہتے ۔۔کاروباری اکیلا کھانے کی میز پر انتظار کرتا ۔۔۔کھانا زہر مار کر ۔۔۔کاروباری فون کی دنیا میں منہمک ہوجاتا ۔۔۔
تین دن سے بچے غائب تھے ۔۔۔کاروبار زندگی میں پہلی بار اس کے چہرے پر فکر کے بادل منڈلا رہے تھے ۔۔۔فون کالز اور تلاش بسیار کے باوجود پتا نہ چلا ۔۔۔اب اسے احساس ہوا کہ ،،کسی سے خوشی خریدنی چاہیے !!۔۔۔سچی خوشی ،۔۔کوئی غم بانٹنے والا ملے ۔۔صدیق کی طرح !!!سچا ہمدرد ۔ملازم تو کام نمٹا کر رفوچکر ہوجاتے اور وہ پورے بنگلے میں چکراتے پھرتا ۔۔۔خوشی کی تلاش میں ،
آخر ۔۔تیسرے روز اسے آدھی خوشی ملی ،۔۔بیٹا پریشان حال گھر میں داخل ہوا ۔
کہاں تھے تین دن ؟،،
،،پونا۔۔شہر ،،
کیا کررہے تھے وہاں ؟،،
،،وہ ۔۔وہ ۔۔کلب میں ۔۔،ساری رقم ،موبائل زیورات ،کار ۔۔۔سب کچھ ہار گیا ،،۔۔بڑی مشکل سے بغیر ٹکٹ پہنچا ہوں ،،
،،،کیا بکتے ہو !!،،۔۔تمہاری بہن کہاں ہے ؟
،،وہ ۔۔۔میں اسے بھی ہار گیا ،،
کییا!!۔۔کاروباری غش کھا کر گر پڑا ۔۔۔وہ کاروباری زندگی کی آخری بازی ہار گیا تھا !!