آکسفورڈ ایشمولین میوزیم میں دنیا بھر سے نوادرات اور آرٹ موجود ہے۔ اس کے تہہ خانے میں پیسوں کی گیلری ہے۔ یہاں پر قدیم روم، عباسی دور، وائکنگز سمیت دنیا جہاں سے پیسے مختلف شکلوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں داخل ہونے سے پہلے لگتا ہے کہ اس گیلری میں ہر طرف قدیم سکے ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں۔ پیسے کی صورتوں میں بہت سی ایسی ہیں جو سکے نہیں ہیں۔
فیلکس مارٹن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہماری پیسوں کی تاریخ کو غلط سمجھنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سکے وہ صورت رہی ہے جو زیادہ دیرپا ہونے کی وجہ سے زیادہ عرصہ باقی رہی اور اس وجہ سے ہمارا تصور ایسا قائم ہوا ہے۔ ان کی ایک صورت کو برطانوی حکومت نے 1834 میں تلف کر دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ چھ سو سال کی کلکیشن تھے۔ اور اس کا افسوس ناک نتیجہ کئی صورت میں نکلا۔
یہ شکل بیدِ مجنوں کی ٹہنیاں تھیں۔ آٹھ انچ لمبی ٹہنیاں Exchequer Tallies کہلاتی تھیں۔ یہ ٹہنیاں قرضے اور لین دین کا ریکارڈ رکھنے کا سادہ اور موثر طریقہ تھیں۔ اس میں قرضے کی رقم کنندہ کر لی جاتی تھی۔ جیسا کہ “نو پاوٗنڈ، چار شلنگ اور چار پنس جو بشپ فلک باسٹ نے وائی کامب کے کھیت کے عوض ادا کرنے ہیں”۔ یہ تیرہویں صدی میں لندن کے بشپ کا شاہ ہنری سوئم کو قابلِ ادائیگی قرض تھا۔
اور اب ہم اس کے خوبصورت حصے کی طرف آتے ہیں۔ اس لکڑی کو دو حصوں میں توڑ دیا جاتا تھا۔ قرض لینے والے کے پاس جو حصہ تھا وہ فوائل کہلاتا تھا۔ قرض دینے والے کے پاس جو حصہ تھا، وہ سٹاک کہلاتا تھا۔ (آج بھی برطانوی حکومت کے قرض کو یہی کہا جاتا ہے)۔ چونکہ بیدِ مجنوں کی لکڑی کے قدرتی ریشے منفرد ڈیزائن کے ہوتے ہیں تو یہ پہچان آسانی سے ہو جاتی تھی کہ یہ دونوں حصے صرف ایک دوسرے سے ہی میچ کر سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس ریکارڈ کا اندراج کسی کھاتے میں بھی کیا جا سکتا تھا لیکن ٹہنیوں کا یہ سسٹم ایک بہت ہی نئی جدت ممکن بناتا تھا۔ اگر آپ کے پاس وہ ٹہنی ہے جو یہ دکھاتی ہے کہ بشپ باسٹ کو پانچ پاوٗنڈ ادا کرنے ہیں تو اس ٹہنی کی قیمت تقریباً پانچ پاونڈ ہے (اگر باسٹ قابلِ اعتبار ہیں)۔ اگر آپ کو کوئی چیز خریدنی ہے تو اگر خریدار راضی ہے تو آپ اس کو ٹہنی کے عوض خرید سکتے ہیں۔ یہ ادائیگی کا محفوظ اور آسان طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ٹہنیاں پیسے کی ایک شکل بن گئیں۔ ان میں واضح تھا کہ رقم کتنی ہے اور ان کی شناخت کا طریقہ تھا۔ ان کے آپس میں تبادلے سے لین دین ہو سکتا تھا، کاروبار چل سکتے تھے۔ اور یہ ہمیں دکھاتا ہے کہ پیسہ کیا ہے؟ یہ خاص طرح کا ادھار ہے جس کا آزادانہ طریقہ سے تبادلہ کیا جا سکے۔ ایک سے دوسرے کو ادائیگیاں کی جا سکیں۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی بھی تعلق بشپ باسٹ یا ان کے خریدے گئے کھیت سے نہیں رہتا۔ یہ ادھار کے ریکارڈ سے بڑھ کر وسیع تجارتی ادھار بن جاتا ہے۔
ہمیں معلوم نہیں کہ یہ والی ٹہنیاں بطور کرنسی کتنی زیادہ مستعمل رہی تھیں، لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ ایسا مختلف جگہ پر مختلف صورتوں میں ہوتا آیا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور آئیڈیا چین میں ایک ہزار سال پہلے ہونے والی پیپر کرنسی کی ایجاد تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوموار 4 مئی 1970 کو آئرلینڈ میں تمام بینک غیرمعینہ مدت کے لئے بند ہو گئے۔ اس کی وجہ بینکوں کا اپنے ملازمین سے ہونے والا تنازعہ تھا۔ ملازمین نے ہڑتال کر دی۔ بینک بند ہو گئے اور کچھ معلوم نہیں تھا کہ یہ کب حل ہو۔
ایک ترقی یافتہ اکانومی میں یہ خبر تباہ کن ہو گی؟ ہر طرف افرا تفری ہو گی؟ لیکن آئرلینڈ میں ایسا نہیں ہوا۔ چونکہ اس کی توقع پہلے سے کی جا رہی تھی تو لوگوں نے کیش رکھا ہوا تھا لیکن جس چیز کی وجہ سے آئرلینڈ کی معیشت چلتی رہی وہ کچھ اور تھا۔
آئرش ایک دوسرے کو چیک لکھتے رہے۔
ابتدا میں یہ بے تکی بات لگے۔ چیک کاغذ پر لکھی ایک ہدایت ہے جو بتاتی ہے کہ پیسے ایک بینک اکاونٹ سے دوسرے میں منتقل کر دئے جائیں۔ لیکن اگر بینک بند ہیں تو اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ہر ایک کو پتا تھا کہ بینک تو طویل عرصے کے لئے بند ہیں۔
لیکن لوگ چیک لکھتے رہے۔ پیٹرک اپنے ریسٹورنٹ کو بیس پاوٗنڈ کا چیک لکھتا ہے۔ ریسٹورنٹ والا اس سے اپنے ملازمین کو ادائیگی کر دیتا ہے۔ یہ چیک پیٹرک کی طرف سے بیس پاوٗنڈ کی ادائیگی کا ایک وعدہ ہے اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جاتا رہتا ہے۔
یہ نازک سسٹم تھا اور ایسے لوگ اس میں بڑی گڑبڑ پیدا کر سکتے تھے جو ایسے چیک لکھیں جو ادا نہ کئے جا سکیں۔ لیکن مئی گزرا، پھر جون اور پھر جولائی۔ یہ چلتا رہا۔ کیا کوئی اتنے زیادہ چیک لکھ رہا ہے کہ خود بھی نہیں یاد رکھ پا رہا کہ یہ ادا ہو سکیں گے؟ سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اس سسٹم سے اعتماد اٹھ جائے اور لوگ چیک کو قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ لیکن یہ جاری رہا۔ ایک فائدہ یہ تھا کہ آئرلینڈ میں زیادہ تر بزنس چھوٹے اور مقامی تھے۔ لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ دھوکہ دینا ایسی صورت میں مشکل ہوتا ہے۔
نومبر میں معاملہ حل ہوا اور بینک کھلے۔ چھ ماہ سے زیادہ بینکوں کے بند رہنے کے بعد بھی آئرلینڈ کی معیشت بلاتعطل چل رہی تھی۔ اس اثنا میں پانچ ارب پاونڈ کے چیک لکھے جا رہے تھے۔ ان سب کو کلئیر کرتے ہوئے بینکوں کو تین ماہ لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا صرف آئرلینڈ کے ساتھ ہی نہیں۔ ہانگ کانگ میں 1950 کی دہائی میں ایسا ہو چکا ہے۔ آئرلینڈ اور ہانگ کانگ کے چیک ویسی ہی ٹہنیاں ہیں جو برطانیہ میں چلتی رہی تھیں۔ یہ پیسے کی کوئی عجیب صورت نہیں تھیں۔ یہی تو پیسہ ہے۔ اس میں بس پیسے کے اوپر چڑھایا گیا غلاف اتار دیا گیا تھا۔ جس میں اس کے چلتے انجن کو دیکھا جا سکتا تھا۔ ان کے تبادلے سے یہ سب سسٹم عیاں ہو جاتا ہے۔ معیشت اعتبار پر کئے گئے تبادلے کا کھیل ہے۔ پیسے اس میں انسٹرومنٹ ہے جس پر سب بھروسہ رکھتے ہیں۔ یہ جس بھی شکل میں بن جائے، کام کرتا ہے۔
ایشمولین میوزیم میں بہت سے دھاتے کے سکے پڑے ہیں۔ ٹہنیاں اور چیک کے مقابلے میں یہ زیادہ دیرپا ہیں اس لئے نمائش پر ہیں۔ جو شے میوزیم میں نہیں دکھائی جا سکتی، وہ اعتبار اور تبادلے کا نظام ہے۔ حقیقت میں پیسہ یہ نظام ہے۔ دھاتی ٹکڑے تو محض علامتیں ہیں۔ کاغذوں، ٹہنیوں اور لکھے گئے چیک کی طرح۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن کی ان ٹہنیوں کا افسوسناک انجام ہوا۔ اس نظام کو ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ کاغذ کے کھاتوں نے 1834 میں لے لی۔ یہ دہائیوں کی کوششوں کے بعد نظام کو جدید کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔ اس کے طے ہو جانے کا جشن منانے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پرانی لکڑیوں کو جلا دیا جائے۔ یہ چھ صدیوں کا مالیاتی ریکارڈ تھا جس کو ہاوس آف لارڈز میں کوئلوں کے تندور کی نذر کر دیا گیا۔
اتنی تعداد میں لکڑیاں جلانا بڑی آگ کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ اس کے فوری بعد ہونے والی دریافت تھی۔ اس نے ہاوس آف لارڈز، ہاوس آف کامنز اور ویسٹ منسٹر کے محل کے بڑے حصے کو جلا کر راکھ کر دیا۔ یہ عمارت اتنی پرانی تھی جتنا ٹہنیوں کا یہ ریکارڈ۔ شاید ان ٹہنیوں کے ریکارڈ کا خود کو تلف کئے جانے پر لیا جانے والا ایک انتقام تھا۔
ٹہنیوں، کاغذوں، چیک، دھات کے ٹکڑوں، پتھروں سے ہونے والے لین دین، قرض کے تبادلے اور علامات پر اعتبار کے سہارے ہونے والی لین دین ۔۔۔ تبادلے کا یہ نظام پیسہ کہلاتا ہے۔ اور اس سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ پیسہ تاریخِ انسانی میں ہونے والی اہم ترین ایجادوں میں سے ہے۔