میری زندگی میں بہت سے کیس ایسے ہیں جو نہایت دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل فراموش بھی ہیں۔ان میں سے ایک کیس یہ بھی ہے۔ ایک دن میں حسب معمول اپنے دفتر میں موجود تھا کے محرر نے مجھے پیغام دیا کہ SHOصاحب مجھے بلا رہے ہیں میں ان کے آفس میں پہنچا تو چار، پانچ لوگ جو شکل وصورت اور لباس سے اچھے زمیندار لگ رہے تھے وہاں موجود تھے۔ SHOماہر صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولے خان صاحب آپ ان کی بات سنیں ان کی بچی اغواہ ہوگئی ہے ان کا مقدمہ درج کریں محمد حسین ASIآپکی تفتیش میں مدد کرئے گا یہ آپکی پہلی تفتیش ہے انتہا ئی محنت سے کرنی ہے اور لڑکی فوری برآمد کرنی ہے عزت کا معاملہ ہے۔
میں ان کو لے کر اپنے دفتر آگیا۔ ان میں سے ایک صاحب جو اس لڑکی کے والد تھے نے مجھے بتایا کہ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں سب سے بڑی بیٹی شادی شدہ ہے اسکے بعد رابعہ ہے جسکی عمر 18سال ہے اغواہ ہوگئی ہے۔ بیٹے میری بیٹیوں سے چھوٹے ہیں۔کل شام سے میری بیٹی رابعہ گھر سے غائب ہے رشتہ داروں سے بھی پتہ کیاہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کے بچی کہاں جا سکتی ہے۔ اسکی کو ئی دوست یا سہلی بھی نہیں اور نہ ہی بچی کی طرف سے اس قسم کی کوئی شکایت آج تک ملی ہے۔ہمارا گھرانہ کافی دینی ہے اور میری بیٹی صوم وصلوۃکی پابند ہے۔مجھے شبہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ کے لڑکے نے میری بیٹی کو اغواہ کرلیا ہے وجہ یہ ہے کہ اس نے رابعہ کا رشتہ مانگا تھا مگر غیربرادری ہونے کی وجہ سے ہم نے انکار کردیا تھا۔
اس بیان پر میں نے محمد حسین ASIکی زیر نگرانی تحریر بنائی جس میں عارف کے خلاف اغواہ کا مقدمہ درج کردیا۔ کیونکہ یہ میری پہلی تفتیش تھی اس لیے میں کافی پرجوش تھا میرے لیے اہم سراغ اب رابعہ کاہمسایہ عارف تھا۔ میں فوری طور پراس کے گھر پہنچ گیا ملزم کا گھر یزمان کے چک56الف میں ہی تھا ۔ عارف اپنے گھر پہ موجود نہ تھا جس سے ہمارا شک اور بھی زیادہ ہوگیاگھر پہ عارف کا والد موجود تھا جسکو میں نے اپنے بیٹے کو پیش کرنے کا کہا اسے یقین دہانی کروائی کہ اگر عارف بے گناہ ہے اور اس نے رابعہ کو اغواہ نہیں کیا تو اس سے زیادتی نہیں ہوگی۔رات کو دس بجے عارف کا باپ اسے لے کر تھانہ پر آگیا۔گرمیاں تھیں میں باہر صحن میں بیٹھا ہوا تھا عارف نے میرے پوچھنے پرتمام الزام کو جھٹلاتے ہوئے بتایا کہ رابعہ اسے پسند تھی اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔اس نے اپنے باپ کو رابعہ کے گھر رشتہ کے لیے بھی بھیجا تھا لیکن انھوں نے انکار کردیا۔اسکے بعد میں خاموش ہوگیامیں نے اسے اغواہ نہیں کیا ۔میں کل سے بہاولپور گیاہواتھاجیسے ہی گھر واپس آیا ہوں میرا باپ مجھے لے کر تھانہ پر آگیاہے میں اپنی بے گناہی کی قسم دے سکتاہوں آپ ہر طرح سے تصدیق کروا لیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدعی مقدمہ کا تعلق آرائیں برادری سے تھا جبکہ اس کا ہمسایہ عارف جٹ برادری سے تعلق رکھتاتھا۔ یزمان میں جٹ اور آرائیں کی دشمنی بہت مشہور ہے یہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے اور ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جوں ہی انھیں کوئی موقع مل جائے تو اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔مجھے عارف کے بیان میں سچائی محسوس ہورہی تھی لیکن مدعی مقدمہ عارف کے علاوہ کسی اور کا نام لینے کو تیار ہی نہ تھا۔میں نے تما م حالات SHOصاحب کو بتلائے عارف کو بھی SHOصاحب کے پیش کیا۔ SHOنے بھی میری بات کی تقریباََ تائید کی کہ عارف بے گناہ لگتا ہے لیکن مدعی کی تسلی بہت ضروری تھی۔ملزم عارف کی تھانہ پر (خوب خدمت) بھی کی گئی مگر وہ اپنے بیان پر قائم رہا۔عارف کو میں نے حوالات تھانہ میں بند کردیا رابعہ کا باپ اور اسکے ساتھ آئے ہوئے لوگ بھی اپنے گھروں کوروانہ ہوگئے۔
ان دنوں موبائل فون نہیں ہوا کرتے تھے جس سے کسی کی لوکیشن معلوم کی جاسکتی بس ایک ہی طریقہ ہوتا تھا کہ پوچھ گچھ کریں اور محنت کریں چنانچہ میں نے بھی یہی کیا۔میں نے اگلے روز رابعہ کے گاؤ ں میں رہنے والے مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ میں رابعہ کی ماں سے بھی ملا میرے سوالات کے جواب میں اس نے مجھے بتایا کہ رابعہ کو قرآن پاک پڑھانے کے لیے گھر پہ ایک حافظٖ صاحب بھی آتے تھے جو آنکھوں سے نابینا ہیں۔وہ ہمارے چک کی مسجد میں نماز بھی پڑھاتے ہیں ساتھ ہی ان کا گھر ہے۔میں رابعہ کے گھر سے نکل کر چک میں موجود مسجد سے ملحقہ حافظ صاحب کے گھرپہنچا تو گھر کو تالالگا ہوا تھا۔ہمسایہ نے بتایا کہ کل شام کو حافظ انور علی مسجد کی چابی دینے آیا تھا بول رہا تھا کہ ان کی والدہ کی طعبیت خراب ہے اس کیے وہ فیصل آباد جا رہاہے۔کیونکہ جب بھی وہ اپنے آبائی علاقہ فیصل آباد جاتا ہے تو مسجد کی چابی مجھے دے کرجاتاہے۔میں نے حافظ انورکی عمراور حلیہ پوچھا تو مجھے بتایا گیاکہ اس کی عمر35/40سال ہے۔کالا رنگ اور چہر ہ پر چیچک نے نشانات ہیں۔ایک لمحہ کہ لیے میرے ذہن میں آیا یہ خیال کہ ہوسکتا ہے کہ رابعہ کو حافظ انور نے اغواہ کیا ہواس کے حلیہ کا سن کر دم توڑ گیا۔اب میرے پاس کوئی سراغ نہیں تھا رابعہ کے ورثاء تو بس یہ چاہتے تھے کہ عارف کو جان سے ہی ماردیا جائے۔
میں تھانہ پر ملزم عارف کی تفتیش کررہا تھا کہ چاچا اللہ وسایا کانسٹیبل آگیا۔چاچااللہ وسایا کی ساری نوکری تھانہ یزمان کی تھی کیونکہ اس کی بھرتی بطور(شترسوار)ہوئی تھی۔محکمہ پولیس میں فٹ کانسٹٰیبل کے ساتھ شتر سوار بھی بھرتی کئے جاتے تھے جو ایسے تھانوں پر ڈیوٹی کرتے تھے جن کے ساتھ چولستان کا علاقہ لگتا ہو۔ مجھے ٹھیٹ سرائیکی میں بولا خان صاحب "چھوکرے کوں جان توں مار ڈیسو کیا؟"ساتھ ہی مجھے بولا مجھے اطلاع ملی ہے کہ حافظ انور لڑکی کے اغواہ والے دن رات کو فیصل آباد والی بس پہ بیٹھ کر گیا ہے اور اس کے ساتھ برقعہ میں ملبوث ایک عورت بھی تھی جبکہ میری اطلاع کے مطابق حافظ انور یہاں اکیلا رہتا ہے۔
ان دنوں یزمان میں ایک ہی بس اڈا ہوتا تھا جہاں سے بسیں اور ویگنیں مختلف شہروں کوجاتی تھیں۔ایک بس یزمان سے روزانہ رات دس بجے فیصل آباد کے لیے جایا کرتی تھی لیکن وہ بس ایک دن چھوڑ کراگلے دن صبح واپس آتی تھی۔میں فوری طور پر بس اڈا پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ مطلوبہ بس دوبارہ فیصل آباد چلی گئی ہے اب ایک دن بعد واپس آئے گی۔اب مجھے اس بس کا انتظار تھا کہ وہ واپس آئے اور اس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر سے پوچھا جائے کہ اس بس میں حافظ انور علی نے سفر کیاتھا یا نہیں؟اور اسکے ساتھ واقعی کوئی برقعہ پوش عورت بھی تھی۔یہ ساری کاروائی میں مدعی کو بتائے بغیر کررہا تھا کیونکہ ان کو تو بس سو فیصد یقین تھا کہ ان کی بیٹی کو عارف نے اغواہ کیا ہے اور کہیں چھپایا ہوا ہے۔
ایک دن بعد بس آگئی میں فوری طور پر لاری اڈا پر پہنچا بس کے ڈرائیور اور کنڈیکڑ سے دریافت کیا تو انھوں نے بتا یا کہ واقعی ایک نابیناشخص بس میں یزمان سے فیصل آباد گیا تھااور اس کیساتھ ایک پوش عورت بھی تھی۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس عورت کی عمر کتنی تھی اور کیسی تھی کیونکہ عورت نے سارے سفر اپنے منہ سےنقاب نہیں ہٹایا۔ساری بات SHOصاحب کو مدعی کی موجودگی میں بتائی ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو SHOکے سامنے پیش کیاجن کے بیانات سننے کے بعد انھوں نے فوری طور پر مجھے کہاکہ کے آپ پولیس پارٹی لے کر فیصل آبادچلے جائیں اور اس بات کی تصدیق کریں کے واقعی حافظ انور علی کیساتھ جانے والی عورت رابعہ ہے یانہیں۔
مدعی کوسواری کے انتظام کا کہا گیاکیونکہ ہمارے ملک میں مدعی مقدمہ کی جیب ہی وہ ذریعہ ہے جسے کہیں بھی استعمال کیا جاتا ہے دوران سفر پولیس ملازمین کا کھانا پینا اور دیگر عیاشی بھی بے چارہ مدعی ہی برداشت کرتاہے۔مدعی مقدمہ فوری طور پر ویگن لے کر آگیا اور ہم فیصل آبادروانہ ہوگئے۔ کیونکہ ہمیں حافظ انور علی کے گھر کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ کدھر ہے اس لیے نشاندہی کے لیے ہم اس کے ہمسایہ کو بھی ساتھ لے لیا گیاجس نے فیصل آباد میں اسکا گھر دیکھا ہوا تھا۔پور ے دن کی مسافت کے بعد رات کو ہم فیصل آباد پہنچ گئے انور علی کے گھر پر ریڈ کیا جہاں اسکی بوڑھی ماں اور چھوٹا بھائی مل گئے۔جنھوں نے بتایا کہ انور علی یہاں نہیں آیا ہوسکتا ہے وہ اپنے ماموں کے پاس سمندری چک نمبر 465گ ب گیا ہو۔ بغیر کوئی وقت ضائع کیے حافظ انور علی کے چھوٹے بھائی کو ہمرا ہ لے کر چک نمبر465گ ب کی طرف روانہ ہوگئے۔
انور علی کے ماموں کا گھر چک نمبر 465گ ب کی آبادی سے باہر تھا۔ وہاں پہنچے تو انور علی وہاں موجود تھا کمرہ میں داخل ہوئے تو ایک لڑکی بھی موجود تھی جسکو رابعہ کے باپ نے شناخت کیا کہ یہ اسکی بیٹی ہے۔ میں نے زندگی میں کافی خوبصورت لڑکیا ں دیکھیں رابعہ بھی ان میں سے ایک تھی۔ گورا رنگ، موٹی آنکھیں، پتلی ستواں ناک، لمبا قد،بھرا جسم غرض کوئی خامی مجھے نظر نہ آئی اور پھر میں نے حافظ انور علی کو دیکھا، آنکھوں سے اندھا، چیچک زد ہ چہرہ، سیاہ رنگت میں حیران تھا کے رابعہ اس کے ساتھ کیسے آگئی۔رابعہ کے باپ نے رابعہ کو تھپڑ مارنے کی کوشش کی جسے میں نے سختی سے روکا اور فوری طور پر وہاں سے ملزم انور علی اور لڑکی رابعہ کو لے کر یزمان کے لیے روانہ ہوگیا۔ دورانِ سفر اس بات کا میں نے خیال رکھا کہ کہیں غیرت میں رابعہ کا باپ اس کو یا انور علی کو نقصان نہ پہنچائے۔ اپنے ساتھ جانے والے پولیس ملازمین کو بار بار ہدایت کرتا رہا ہم جہاں بھی رکتے پولیس ملازمین کو ان کی حفاظت پر معمور کردیتا۔
آخر کار ہم واپس یزمان پہنچ گئے۔تھانہ پر SHOاپنے کمرہ میں موجود تھے ملزم انور اور لڑکی کو لے کر میں اند ر چلا گیا۔SHOمہر صاحب نے اپنی کرسی سے اٹھ کر مجھے شاباش دی۔ ملزم انور علی کو باہر بھیج دیا اورمیری موجودگی میں رابعہ کا بیان لینا شروع کیا۔ جو کہانی رابعہ نے سنائی اسے سن کر میر ے تمام تحفظات دور ہوگئے۔ رابعہ نے بتایا کہ انور علی قرآن پاک پڑھانے کے لیے گھر پر آیا کرتا تھامیں باقاعدگی سے قرآن پاک پڑھتی تھی۔کیونکہ حافظ انور علی آنکھوں سے نابینا تھا وہ صرف میری آواز سن سکتا تھا۔ ایک دفعہ پانی دیتے ہوئے اس نے میرے ہاتھ کو بھی چھوا تھا، اس دن سے حافظ انور علی کا روایہ مجھ سے کچھ عجیب سا ہوگیا تھا۔وہ مجھے ہروقت اللہ کے خوف سے ڈراتا تھا اور ساتھ مجھے یہ باور کر انے کی کوشش کرتا تھا کہ آپ بہت خوبصورت ہیں آپکی شادی کہیں بھی ہو جانی ہے۔ میں ایک بدقسمت، بدصورت اور اندھا شخص ہوں مجھ سے کون شادی کرے گا۔ اگر آپ مجھ سے شادی کرلیں تو اللہ پاک آپکو اس کا اجر دے گا ا ور اگلے جہان آپکو جنت ملے گی اور مجھے اکثر یہ شعر سنایا کرتا تھا
"کر و مہربانی تم اہل زمین،پرخدا مہربان ہوگا عرش بریں پر"
روزانہ یہ باتیں سن کر میرا دل بھی موم ہوگیااورمیں نے حافظ انور علی سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اپنے آپ کو اس کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا۔سمندری میں انور علی کے ماموں کے گھر ہمارا شرعی نکاح بھی پڑھوا دیا گیا تھا۔ اب وہ میرا مجازی خدا ہے میں اس کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں۔انور علی نے بھی اپنے بیان میں رابعہ کے اس بیان کی تائید و تصدیق کی۔مدعی مقدمہ اپنی بیٹی رابعہ کو اپنے ساتھ گھرلے جانا چاہتا تھا مگر رابعہ کسی صورت میں انور علی کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر لڑکی کو اسکے باپ کے حوالے کردیاگیا تو وہ کہیں اسکو قتل نہ کردے لیکن ساتھ یہ بھی خیال آتا تھا کہ ایک کم عمر لڑکی جو ایک 40سالہ اندھے کے مکرو فریب اور بہلاوئے میں آکر اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے جسکے پاس نہ گھر ہے اور نہ در، اس طرح اسکی زندگی برباد ہوجائے گی۔
ان دنوں جنرل پرویز مشرف کا عورتوں کے بارے میں بنایاہواقانون نافظ نہیں ہوا تھاکہ اگر عورت یا لڑکی اپنے خاوند یا باپ کی عزت کو روند کر اپنے آشنا کیساتھ بھاگ جائے یا اس سے شادی کرلے تو اسے اپنے آشنا کیساتھ ہی بھیج دیا جاتا ہے۔میں نے SHOسے مشورہ کیا اور ساری بات بتائی SHOنے بھی میری اس سوچ کی داد دی اور کہا کہ اس کے باپ سے معقول ضمانت لے لی جائے کہ وہ لڑکی کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔چنانچہ میں نے ضمانت لے کر رابعہ کو اس کے باپ کے حوالے کر دیا اور حافظ انور علی کو حوالات میں بند کردیا۔
اگلے دن لڑکی کو بہاول پور مجسٹریٹ کے سامنے بیان کے لیے پیش کیا۔مجھے اس بات پہ قطعاََ حیرت نہیں ہوئی کہ رابعہ مجسٹریٹ کو بڑے آرام سے یہ بتا رہی تھی کہ ملزم حافظ انور علی نے اسے ورغلایا،اْسے سمندری لے گیا،اسکے ساتھ اسکی مرضی کے خلاف زنا کرتا رہا اور یوں حافظ انور علی کو اس مقدمہ میں چالان کردیا گیا۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہم اپنے کم عمر بچے اور بچیوں کو دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے اساتذہ کے پاس بھجواتے ہیں یاوہ گھروں میں پڑھانے آتے ہیں تو ہمیں اس بات کا ضرور خیال کرنا چاہیے کہ ان کا رویہ بچوں کے ساتھ کہیں غلط تو نہیں نئے آنے والے پولیس افسران کے لیے اس واقعہ میں یہ سبق موجود ہے کہ صرف مدعی مقد مہ کے کہنے پر تفتیش نہ کریں بلکہ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے اپنے ذہن کو بھی استعمال کریں خاص طور پہ تھانہ پر تعینات پرانے اور تجربہ کارپولیس ملازمین سے مشورہ ضرور کرلیا کریں۔
“