محترم جناب ضیاء شاہدصاحب چیف ایڈیٹرروزنامہ خبریں۔
پاکستان میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیںہرپارٹی کے کارکن کاایک اپنامقام ہے کیونکہ کارکن اپنی اپنی پارٹی کی خیربھی مانگتے ہیں اوراس کے لیے رات دن محنت بھی کرتاہے جب بھی کوئی پارٹی حکومت میں آئی ہے اس کے پیچھے ساری محنت کارکنوں کی ہوتی ہے پارٹیوں کواقتدارمیں لانے کے لیے یہ ساراکمال کارکنوں کاہوتاہے لیڈروں کوتوگرمی بھی لگتی ہے اورسردی بھی واحدبیچارہ کارکن ہے کہ اس کا جنون نہ تواسے گرمی لگنے دیتاہے اورنہ سردی اس کے ذہن پرایک ہی بھوت سوارہوتاہے کہ کسی نہ کسی طرح میری پارٹی اقتدارمیں آجائے کیونکہ کارکن نے اپنے مستقبل کے لیے کئی خواب سجائے ہوتے ہیں۔جب تک پارٹیاں اپوزیشن میں ہوتی ہیں اس وقت توکارکنوں کوبڑی اہمیت دی جارہی ہوتی ہے کیونکہ لیڈران کوپتہ ہوتاہے جب بھی کوئی حکومت گرانی ہوکوئی جلسہ جلوس کرناہویاکوئی تحریک چلانی ہولیڈران کارکنوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ جیلوں میں بھی کارکنوں نے جاناہوتاہے ماریں بھی کارکنوں نے کھانی ہوتی ہیں۔تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی سیاسی پارٹی نے کوئی تحریک چلائی ہواس کے اندرزخمی ہونے والے بھی کارکن ہوتے ہیں حتیٰ کہ جلسے جلوسوں کی بھگدڑکی وجہ ہویاحکومتی مشینری کے تشددکی وجہ سے جتنی بھی اموات ہوئی ہیں مرنے والے کارکن ہی تھے آج تک کوئی لیڈرنہیں جس نے جان کی قربانی دی ہوبیچارہ کارکن اتنابھولاہوتاہے کہ لیڈروں کی چٹ پٹی باتیں سن کراتنے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ پارٹی کے ساتھ وفاداری کے لیے گھروالوں اوردوست عزیزرشتہ داروں سے ناراض ہوجاتاہے سب رشتے ناطے توڑکرپارٹی کے ساتھ مخلص ہوکرکام کرتارہتاہے لیڈران کارکنوں کی اس طرح ذہن سازی کردیتے ہیں جس طرح دنیاکی ہرچیزبے معنی ہو کارکن کادنیامیں آنے کامقصدصرف ایک ہی ہے اُس نے ساری زندگی پارٹی کے لیے لڑنامرناہے اورپارٹی کواقتدارمیں لاناہے جب پارٹیاں اقتدارمیں آجاتی ہیں تواس وقت لیڈران کے دماغ خراب ہوجاتے ہیں لیڈران اعلیٰ درجے کے انسان بن جاتے ہیں اورکارکن انتہائی نچلے درجے کے انسان بن جاتے ہیں ۔پھرایک ایساوقت آتاہے کہ لیڈران اقتدارکے نشہ میں مست ہوکرکارکنوں کوکیڑے مکوڑے سمجھنے لگ جاتے ہیں لیڈران اورکارکنوں کے معیارمیں زمین آسمان کافرق آجاتاہے دراصل کارکن نے پارٹی کے لیے دن رات محنت اتنی کی ہوتی ہے کہ وہ پارٹی اقتدارمیں آنے کے بعد پارٹی پرحق سمجھتاہے پارٹیاں بیچارے کارکن کوحق توکیادیناہوتاہے؟ بلکہ ذلت رسوائی دھکوں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتاپھرجاکرکارکن کوتھوڑی ہوش آتی ہے اس نے زندگی کاقیمتی وقت سیاسی پارٹیوں اوران مفادپرست لیڈروں ضائع کردیاہے جب کارکن کوہوش آتی ہے اس وقت تک کارکن اپناساراکچھ بربادکرچکا ہوتاہے ان لیڈران کی خاطرکتنے لوگوں سے دشمنی مول لے چکاہوتا ہے اپنااوراپنے بچوں کامستقبل تباہ کرچکاہوتاہے۔جب پارٹی کاکارکن مایوس ہوکرناراض ہوکرگھرمیں بیٹھ جاتاہے تواس وقت پارٹی پرزوال آناشروع ہوجاتاہے ۔پیپلزپارٹی کی مثال آپ کے سامنے ہے ایک وقت تھا پیپلزپارٹی ورکرزکوبہت زیادہ اہمیت دیتی تھی اس وقت پیپلزپارٹی پرعروج رہاجونہی لیڈران کارکنوں کے ساتھ رابطہ منقطع کیاکارکنوں کواہمیت دیناچھوڑدی توپیپلزپارٹی عبرت کامقام بن گئی اب بھی اگرپیپلزپارٹی خودکوزندہ رکھناچاہتی ہے توناراض اورمخلص کارکنوں کومناناہوگاورنہ اورپیچھے چلی جائے گی اسی طرح جب(ن) لیگ پرمشکل وقت آیا تولیڈران جیلوں میں تھے کارکن گھروں سے نہیں نکلے ناراض تھے جس کی وجہ سے (ن)لیگ کامیاب تحریک نہیں چلاسکی پاکستان میں جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں سب سے زیادہ محنت اورلمبی اپوزیشن تحریک انصاف کے ورکرزنے کاٹی ہے اب تحریک انصاف 23سال جدوجہدکرنے کے بعد حکومت میں آگئی ہے تحریک انصاف کی جواعلیٰ قیادت ہے وہ دراصل دوسری پارٹیوں سے آئی ہے اب ان کارویہ اسی طرح قائم دائم ہے کارکنان کاکوئی حال پوچھنے والانہیں ہے سابقہ روائت کومدنظررکھتے ہوئے کارکنوں کی تذلیل ہورہی ہے دوسری پارٹیوں سے آنے والے لوگ اپنی من مانی کررہے ہیں تحریک انصاف کے نظریاتی ورکرزکونظرانداز کیاجارہاہے پارٹی کوہائی جیک کرکے تحریک انصاف کے کارکنوں کی بجائے اپنے ذاتی لوگوں کونوازاجارہاہے اب تحریک انصاف نے حالیہ تنظیم نومیں پارٹی کے اصل ورکر کو پیچھے دھکیل کرپیراشوٹ کے ذریعہ آنے والوں کواہمیت دی جارہی ہے اب موجودہ حالات میں پورے پاکستان میں تحریک انصاف کاورکرزعمران خان پرناراض نظرآتاہے کئی لوگوں نے توناراض ہوکر پارٹی عہدوں سے استعفے دے دیئے ہیں یہ تحریک انصاف کے لیے اچھاشگون نہیں ہے عمران خان کواپنے جنونی اورنظریاتی ورکرزکواہمیت دینی چاہیے ورنہ جب عمران کاجنون اوریہ نظریہ گھربیٹھ جائے گا اس دن تحریک انصاف بھی گھربیٹھ جائے گی پارٹی کوزندہ رکھنے کے لیے عمران خان کے جنون اورنظریہ کوزندہ رکھنا ہوگااگرعمران خان اپنے ورکرزپرتوجہ نہیں دیتا تواگلے الیکشن میں تحریک انصاف کو بہت پریشانیوں کاسامناکرناپڑے گاکیونکہ کارکن پارٹیوں کااثاثہ ہوتاہے اب عمران خان کے لیے امتحان کاوقت آگیاہے کہ عمران خان دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں کے چنگل سے نکل کراپنے نظریاتی لوگوں کواہمیت دیتاہے یاہمیشہ کے لیے ان کے چنگل میںپھنس گیاہے یہ عمران خان کے لیے انتہائی توجہ طلب بات ہے