ریگستان اور صحرائی علاقے کی بغیر پتوں کے گھنی جھنڈ نما شاخوں والا کانٹے دار جھاڑی نما چھوٹا درخت ہے۔ یہ خود رو جھوٹے قد کا پھیلا ہوا درخت ہوتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے کونپل نما پتے، ایک ماہ سے بھی کم وقت میں تیزی سے ختم ھو جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہ پتوں کے بغیر کا پودا ہوتا ہے۔ اس کا مقامی نام کیر/کر/کریل/ڈیلا/کریہہ ھے جبکہ سائنسی نام Capparis decidua ھے
اس پر سال میں دو بار سرخ / نارنجی پھول لگتے جو شروع میں گول سبز رنگ کے پھل میں تبدیل ھو جاتے ھیں اور پکنے پر گہرے گلابی رنگت اختیار کر لیتے ھیں، جسے ہم اپنی مقامی زبان میں جب سبز ہوتی ہیں تو “ڈیلیاں” اور جب پک کر موٹے موٹے اور سرخ ہو جاتے ھیں تو “ڈیلے” کہتے ہیں۔ اس کے پھولوں اور پھلوں کو سبزیوں کی ڈش کے طور پر اچار یا پکایا جاتا ہے۔ اس کا پودا ایک زبردست قسم کا ریت بائنڈر ہے جو ریت کے ٹیلوں کو مستحکم کرتا ہے۔ یہ صحرا سے ھٹ کر سڑکوں، نہروں کے کناروں اور قبرستانوں کے قریب بھی تقریباً ھر بستی میں موجود ھوتا تھا۔
ہم نے بچپن میں “کریہے” پہ لگے ہوئے “سرخ ڈیلے” کئی دفعہ کھائے ہیں۔ کبھی کسی زمانے میں “ڈیلوں” کا سالن بھی گھروں میں تقریباً سال میں تین چار دفعہ ضرور پکتا تھا۔ اور اس کے فوائد بھی بتائے جاتے تھے۔۔ شاید معدہ کی جملہ بیماریوں اور شوگر وغیرہ جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی لکڑ بھی بڑی فائدہ مند ہے۔ جلانے کے کام بھی آتی ہے جبکہ اس کی جڑ سے باقاعدہ کمر درد اور جوڑوں کے درد کا علاج کیا جاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب “ڈیلوں” کا اچار بڑے اہتمام سے بنایا جاتا تھا۔ کچھ پرانے لوگ اب بھی ان کا اچار بناتے ہیں۔
ڈیلیوں کو سالن کے طور پہ پکانے کے لئے ایک خاص طریقے سے خشک کیا جاتا ہے۔ جب “ڈیلیاں” سبز ہوتی ہیں تو “کریر” کے درخت سے اتار لی جاتی ہیں۔ پھر ان کو لسی میں بھگو کر گھڑے کے اندر چند دن رکھا جاتا ہے جیسے اچار بنتا ہے۔ پھر گھڑے سے نکال کر دھوپ میں پھیلا کر خشک کی جاتی ہیں۔ جب یہ بالکل خشک ہو کر کڑاکے دار ہو جاتی ہیں تو پھر ان کو عام شوربے والے سالن کی طرح پکایا جاتا ہے جس کا نہایت لذیز سالن بنتا ہے جس میں ہم روٹی کے ساتھ کھایا کرتے تھے۔ گوشت اور آلو ملا کر بھی اسے پکایا جاتا ہے۔
کمردرد (مہروں کا درد یا جوڑوں کا درد) کے لئے ایک نسخہ یہ ھے کہ “کریر کے درخت کی جڑ لے کر اس کو جلا کر کوئلہ بنا کر پِیس لیں۔ اس میں سے ایک رتی لے کر دیسی گھی کے ساتھ ملا کر استعمال کرنے سے دردوں سے نجات ملتی ہے۔ اگر اسے لسی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو ٹوٹی ہوئی ہڈی بھی جُڑ جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے پھل میں تانبہ کشتہ ہوتا ہے۔ کریر کی لکڑی کا “تیل” جوڑوں کے درد کے لئے لاجواب ہے۔
خشک ڈیلوں کو پانی میں بھگو کر رکھا جاتا ہے، جب نرم ہو جاتی ہیں تو ان کے اندر سے بیج نکال کر پھینک دیں کیونکہ بیج انتہائی کڑوے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد عام ترکاری بنانے جیسا مصالحہ یعنی پیاز بھون کر ٹماٹر ادرک لہسن اور مرچ نمک وغیرہ حسب ذائقہ ڈال کر بھون لیں۔ اور پھر آپ گوشت یا آلو ڈال کر پکا کر اپنی مرضی کا شوربہ بنا لیں۔ دم لگاتے وقت سبز دھنیا سبز مرچ اور میتھی ڈال دیں تو آپ کی بھوک کی اشتہاء خوشبو سے ہی بڑھ جائے گی۔
اس کے پھل، جڑوں اور۔ شاخوں کو بہت سی روایتی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اب یہ سوغات بھی معدومی کے خطرات سے دوچار اپنی آخری دہائی میں ھے۔ لگتا نہیں کہ 2030 کے بعد بھی اس کے درخت ھوں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...