بنی نوع انسان ہمیشہ سے ایک تصور اور عقیدے کے تحت زندگی بسر کرتا رہا ہے، ماہرین ِ آثارِ قدیمہ نے جب پتھر کے دور کے انسانوں کی قبریں کھودیں تو ان میں سے تیر کمان، زرہ بکتر، تلواریں، اور ڈھالیں اور قربانی کے جانوروں کی ہڈیاں برآمد ہوئیں۔ ان چیزوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ کسی ایسے مستقبل پر عقیدہ رکھتے تھے جو ان کے دور سے مماثلت رکھتا ہوگا اور وہ وہاں جاکر ان ہتھیاروں کو کام میں لاسکیں گے۔ ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں ایسی ہی کہانیاں سناتے رہے ہوں کہ ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ اب اگلے جہان میں انہی کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ زمانۂ سابق کے لوگ موت کے بارے میں یقیناً وہ سوچ نہیں رکھتے تھے، جو یہ کہانیاں سنانے والے رکھتے تھے۔
جانور اور مال مویشی ایک دوسرے کو مرتے اور ہلاک کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن اس کے بارے میں مزید غور نہیں کرتے۔ لیکن پتھر کے دور کے قبروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ اپنے فوت ہوجانے والے اور اس کے بعد کی زندگی سے متعلق بھی کوئی نظریہ رکھتے تھے جس سے وہ اپنے زمانۂ حال سے بھی مطمئین ہوکر زندگی گزارتے تھے اور آئندہ پیش آنے والی زندگی کے بارے میں بھی اطمینان حاصل کرلیتے تھے۔ یعنی یہ لوگ جو اپنے مردوں کو اتنی احتیاط کے ساتھ دفناتے تھے، یہ سمجھتے تھے کہ یہ دکھائی دینے والی دنیا، ایک واحد حقیقت نہیں ہے، اس کے بعد بھی ایک دنیا آنے والی ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوع انسانی اپنی روز مرہ کی زندگی کے تجربے کے دائرے میں سے باہر نکل کر سوچنے اور تصورات قائم کرنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے یہی خصوصیت اسے جانوروں اور مویشیوں سے ممیز کرتی ہے۔
ہم معنی تلاش کرنے والی مخلق (Meaning seeking creatures) ہیں ۔ اور اپنے گردو پیش کے حالات سےکبھی مطمئین ہوتے ہیں اور کبھی غیر مطمئین ہوجاتے ہیں۔ کتوں کے بارے میں جہاں تک ہم جانتے ہیں وہ اپنے حالات زیست سے پریشان نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں دنیا کے دیگر خطوں کے بارے میں کوئی تشویش ہوتی ہے۔ یہ اپنی زندگی کو کسی دوسرے تناظر سے بھی دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان کے برعکس انسان اپنے حالات سے بہت جلد مایوس ہوجاتا رہا ہے، ہم شروع ہی سے ایسی کہانیاں گھرتے آئے ہیں جو ہمارے زندگی کو ایک وسیع تناظر عطا کرتی رہی ہیں۔ جن کی مدد سے ہم وقتی پریشانیوں کو بھول کر اپنی زندگی کی معنویت اور اس کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔
انسانی ذہن کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایسے خیالات اور تجربات بھی وضع کرسکتا ہے کہ ہم ان کی عقلی توجیہہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک قوتِ متخیلّہ (Imagination) ہے۔ جس کے ذریعے ہم ایسی صورت حال کا تصور کرسکتے ہیں جو فوری طور پر موجود نہیں ہوتی، یعنی اس کا کوئی خارجی وجود نہیں ہوتا، یہ محض ایک ذہنی تخیل ہوتا ہے۔ یہ قوتِ متخیلہ ہی ہے جو مذہب اور عقیدے کو وجعد میں لاتی ہے۔ یہ اساطیری خیالات ایک دوسرے سے اتنے متصادم ہیں کہ ان میں صحیح اور غلط کی حدود آپس میں غلط ملط ہوچکی ہیں، اس لیے ہم بطورِ انسان انہیں غیر معقول اور لذت پرستی پر مبنی قرار دے کر مسترد کردیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہی قوتِ متخیلہ نے سائنسدانوں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نئے نئے علوم کو منظرِ عام پر لارہے ہیں اور انہوں نے اس کے بل بوتے پر ایسی ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے ماحول میں بڑے مؤثر ثابت ہورہے ہیں۔ سائنسدانوں کے تصور نے ہمیں بیرونی خلا میں سفر کرنے اور چاند پر چہل قدمی کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ یہ وہ کارہائے نمایاں ہیں جو پہلے صرف تصور کی دنیا میں ممکن سمجھے جاتے تھے۔ انسان کے دائرہ کار کو وسعت دینے میں اساطیر اور سائنس، دونوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرح اساطیریات بھی، جیسا کہ ہم آگے بتائیں گے، اس دنیا کے دائرے سے خارج کی باتیں نہیں بلکہ اس کے اندر کی باتیں ہیں اور ہمیں اپنے اندر رچ بس کر رہنا سکھاتی ہیں۔
پتھر کے دور کی قبریں ہمیں اساطیر کے بارے میں پانچ اہم باتیں بتاتی ہیں۔
پہلی بات: ان کی جڑیں ہمیشہ موت کے تجربے اور فنا پزیری کے خوف (Fear of extinction) کے اندر پیوست ہوتی ہیں۔
دوسری بات: جانوروں کی ہڈیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مردے کی تدفین کے ساتھ ساتھ قربانی بھی دی گئی تھی۔ اساطیر اور مذہبی رسوم، لازم و ملزوم ہیں ۔ انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ان اساطیری داستانوں کو عبادت اور دعاؤں سے الگ کرکے دیکھا جائے تو ان کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔
تیسری بات: پتھر کے دور کی داستان کو کسی قبر کے پاس بیٹھ کر ازسرِنو دوہرایا جاتا تھا، تاکہ یہ قصے معدوم نہ ہوجائیں۔ زیادہ تر زور دار قصے کہانیاں بعید از قیاس نکات کے گرد گھومتی ہیں اور ہمیں اپنے تجربے سےدور لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسے لمحات ہم سب کی زندگی میں آتے ہیں کہ ہم ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جو ہم نے نہیں دیکھی ہوتیں اور ہم ایسے کام کر گزرتے ہیں جو پہلے ہم نے نہیں کیے ہوتے۔ اساطیری داستان نامعلوم چیز سے متعلقہ ہوتی ہے، ایسی چیز جس کے بارے میں ابتدائی طور پر ہمارے پاس کوئی الفاظ نہیں ہوتے۔ لہٰذا یہ داستانیں ایک "عظیم خاموشی" کے قلب میں اتر کر اس کی گہرائی کا جائزہ لیتی ہیں۔
چوتھی بات: یہ داستان برائے داستان نہیں ہوتی، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے۔ ان قبروں میں میتیں بعض اوقات حالت جنین (Fontal Position)میں رکھی جاتی تھیں۔ جیسے کہ یہ شخص دوبارہ پیدا ہورہا ہو۔ یعنی کہ متوفی کو اگلا قدم خود اٹھانا ہے۔ اس کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اساطیری داستان ہمیں اس دنیا یا اگلی دنیا میں صحیح روحانی راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتی ہے۔
آخری بات یہ کہ اساطیری داستان ہمیں اس دوسری دنیا کے احوال بتاتی ہے جو ہماری موجودہ دنیا کے پہلو بہ پہلو جلتی ہے اور بعض صورتوں میں اس کی تائید و حمایت بھی کرتی ہے۔ اس غیر مرئی مگر اس سے زیادہ طاقتور حقیقت کو جو اساطیری داستان کا بنیادی موضوع ہوتا ہے "دیوتاؤں کی دنیا" بھی کہا جاتا ہے۔ اسے ایک دائمی اور سدا بہار فلسفے (Perennial Philosophy) کی حیثیت حاصل رہی ہے کیونکہ اس نے سائنسی جدت کے آنے سے پہلے کے تمام معاشروں، ان کے رسم و رواج اور ان کی سماجی تنظیموں کو متاثر کیا ہے اور آج کے روایتی معاشروں پر بھی اثر انداز ہورہا ہے۔ اس فلسفے کے مطابق اس دنیا میں جو کچھ بھی رونما ہورہا ہے، جو کچھ بھی ہم یہاں دیکھ اور سن رہے ہیں، ان کا نصف ثانی، مثنٰی یا جزو تکمیلی (Counterpart) دیوتاؤں کی دنیا میں وقوع پذیر ہورہا ہے۔ جو ہماری دنیا کے مقابلے میں زیادہ بابرکت، زیادہ قوی اور زیادہ دیرپا ہے۔ اور ہر ارضی حقیقت، اس کے نقشِ اول (Archetype) یعنی اصل نمونے کا محض ایک ہلکا سا پرتو اور ایک ناقص نقل ہے۔ جبکہ کمزور بنی نوع انسان، اس دیوتائی یا آسمانی نقش اول میں شرکت کی بدولت ہی اپنی ہستی کی تکمیل کرسکتا ہے۔ اساطیری داستانوں نے اس حقیقت کو ایک واضح شکل عطا کی ہے جو انسانوں نے اپنے وجدان کے ذریعے پائی تھی۔ ان داستانوں نے انسان کو دیوتاؤں کے طرزِ عمل سے آگاہی بخشی ہے، یہ باتیں محض دلچسپ قصے کہانیوں کے طور پر نہیں بتائی گئیں بلکہ اس لیے بتائی گئی ہیں کہ لوگ ان طاقتور ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلنے کے قابل ہوسکیں۔ اور اپنے اندر الوہیت (Divinity) محسوس کرسکیں۔
ہم اپنے سائنسی کلچر میں الوہیت کے سادہ قسم کے تصورات رکھتے ہیں، قدیم دنیا میں دیوتاؤں کو شاذو نادر ہی مافوق الفطرت ہستی سمجھا جاتا تھا، انہیں خال خال صورتوں میں ہی انسانوں سے جدا اور الگ تھلگ رہنے والی ہستی قرار دیا جاتا تھا۔ اساطیر جدید مفہوم کے مطابق مذہبیات سے متعلق نہیں ہوتی تھیں بلکہ انسانی تجربات سے متعلق ہوتی تھیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ دیوتا، انسان، جانور اور عالم تجربات آپس میں پیچ در پیچ گندھے (Inextricably bound up) ہیں، سب ایک ہی ملکوتی مادے سے بنے ہیں اور ایک ہی قسم کے قوانین کے تابع ہیں۔ دیوتاؤں کی دنیا اور عورت و مرد کی دنیا کے مابین ابتدائی طور پر کوئی خلیج حائل نہیں تھی۔ جب لوگ الوہیت کے بارے میں گفتگو کرتے تھے تو وہ عموماً اس کے ارضی پہلوؤں سے متعلق بات چیت کررہے ہوتے تھے۔ دیوتاؤں سے الگ سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی انسانوں کے طاقتور جزبوں محبت غصے اور شہوت سے جدا سمجھا جاتا تھا، جنسی شہوت کا جذبہ مرد اور عورت کو چند لمحوں کے لیے زیست کی مختلف سطحوں پر پہنچا دیتا تھا تاکہ وہ دنیا کو نئی نظروں سے دیکھنے کے قابل ہوجائیں۔
لہٰذا دیومالائی کہانیوں کا مقصد لوگوں کو پیچیدہ انسانی مخمصوں سے عہدہ برآ ہونے، اور دنیا میں اپنے مقام کے تعین اور اپنی صحیح پہچان میں مدد دینا ہوتا ہے۔ ہم سب جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے ہیں لیکن چونکہ ہماری اوّل ترین ابتداء (earliest beginning) زمانۂ قبل از تاریخ کے دھند لکوں میں کھو چکی تھی، اس لیے ہم نے اپنے ان آباؤ اجداد کے بارے میں دیومالائی داستانیں گھڑلیں جو تاریخی ہستیاں نہیں تھیں، ان داستانوں نے ہمیں ہمارے ماحول ہمارے ہمسایوں اور رسم و رواج سے متعلق ایک خاص طرزِ عمل اپنانے میں مدد پہنچائی۔ ہم یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے اگلی منزل کیا ہے۔ چنانچہ ہم نے ان سے متعلق بھی کہانیاں وضع کرلیں جو ہمارے بعد از موت وجود کے بارے میں ہیں۔ اگرچہ، جیسا کہ آگے بیان آرہا ہے، بنی نوعِ انسان کی لافانیت (immortality) سے متعلق کوئی زیادہ کہانیاں نہیں بنائی جاسکیں۔ ہم ان پُرہیبت لمحات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جب ہم اپنے عام وجود کی دلچسپیوں کے دائرے میں سے نکل چکے ہوں گے۔ دیوتاؤں نے ہمیں ماورائیت (transcendence) کے تجربے کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ قدیم فلسفے نے ہمارے جبلی شعور کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسان اس مادی وجود کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے، آنکھوں سے جو مادی دنیا ہمیں اس وقت دکھائی دے رہی ہے، اس کے پیچھے بھی ایک دنیا کار فرما ہے۔
آج "داستان" کا لفظ ایسی باتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محض جھوٹ ہو۔ جس سیاستدان پر کسی جرم یا بدعنوانی کا الزام ہو، اس کا عموماً یہی جواب ہوتا ہے، یہ محض داستان طرازی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جب ہم سنتے ہیں کہ دیوتا زمین پر چلتے ہیں، مردے مقبروں میں سے باہر نکل کر ٹہلنے لگتے ہیں یا سمندروں نے پھٹ کر پسندیدہ لوگوں کو گزرنے کا راستہ دے دیا تاکہ وہ دشمنوں کے تعاقب سے بچ نکلیں، آج کا آدمی ان باتوں پر یقین نہیں کرتا۔ کیونکہ اٹھارہویں صدی میں ہمارے اندر تاریخ کا سائنسی شعور پیدا ہوچکا تھا۔ ہم صرف ان باتوں سے تعلق رکھتے ہیں جو حقیقتاً رونما ہوسکتی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے جب لوگ ماضی کے بارے میں لکھتے تھے تو وہ واقعات کے مفہوم کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ داستان یا Myth کو ایک ایسا واقعہ سمجھتے تھے جو کسی مفہوم میں ایک بار وقوع پزیر ہوا ہو اور آئندہ بھی رونما ہوسکتا تھا۔ ہم تاریخ کے وقائع نگارانہ نظریے (Chronological View) پر سختی سے یقین رکھتے ہیں، ہمارے پاس ایسے واقعے کے بارے میں کوئی الفاظ نہیں ہیں لیکن داستان طرازی ایک باقاعدہ فن ہے جس کی جڑیں زمانہ قبل از تاریخ میں پیوست ہیں، یہ فن ہمیں اس دور میں جانے میں مدد دیتا ہے جس میں بے مقصدیت اور بے ترتیبی کی کار فرمائی تھی اور حقیقت کی محض ایک جھلک ہی دیکیی جاسکتی تھی۔
مورائیت کا تجربہ ہمیشہ انسانی تجربے کا ایک حصہ رہا ہے، ہم لمحات بے خودی اور سرمستی کے متلاشی رہتے ہیں۔ جب ہمارے اندر کی دنیا کے ساز چھڑتے ہیں تو ہم لمحہ بھر کے لیے اپنے آپ سے باہر ہوجاتے ہیں، خود کو معمول سے بڑھ کر سرگرم عمل پاتے ہیں اور ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے پوری انسانیت ہمارے اندر سانس لے رہی ہے۔ مذہب اس بے خودی و سرمستی کو محسوس کرنے کے انتہائی روایتی طریقوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اگر یہ انہیں مندروں، صومعوں، گرجاؤں اور مسجدوں میں سے نہیں ملتی تو وہ اس کی تلاش میں کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ وہ اس فن، موسیقی، شاعری، راک انڈ رول، رقص، منشیات، جنسی سرگرمیوں یا کھیلوں میں تلاشی کرتے ہیں۔ شاعری اور موسیقی کی طرح داستان گوئی بھی ہمیں عالم کیف و سرور میں لے جاتی ہے، جہاں ہم موت کے منہ میں چلے جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر داستان گوئی اور صنمیات یہ کام نہ کرتیں تو ان کی افادیت بالکل ہی زائل ہوجاتی۔
اس لیے تمثیلی حکایت یا داستان کو اس خیال سے گھٹیا طرزِ فکر سمجھنا غلط ہوگا کہ اب انسان عقل و منطق کے عہد میں داخل ہوچکا ہے، اسے ان قصے کہانیوں کی ضرورت نہیں رہی۔ داستان گوئی نے یہ دعوٰی کبھی بھی نہیں کیا کہ یہ تاریخ نویسی کی ابتدائی کوششوں کا حصہ ہے اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ اس میں کوئی معروضی حقیقت پائی جاتی ہے۔
داستان ایک ناول، اوپرا (غنائی ڈرامہ) یا بیلے ڈانس کی طرح مفروضے پر مبنی ایک کہانی اور ایک ایسا کھیل ہوتی ہے جو ہماری ٹکڑوں میں بنی ہوئی المناک دنیا کو ارفع شکل میں پیش کرتی ہے۔ یہ ہم سے یہ پوچھتے ہوئے کہ ۔۔۔۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ۔۔۔۔۔؟" ہمیں دنیا ئے امکانات کی ایک شبیہہ قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں نہایت اہم انکشافات میں مدد دی ہے۔ پتھر کے زمانے میں لوگوں نے اپنے مردہ ساتھیوں کو نئی زندگی کے لیے تیار کرکے انہی مفروضہ کہانیوں کا کھیل کھیلا تھا جو تمام داستانوں طرازوں کا مشترک شغل رہا ہے۔ اگر سوال یہ ہوتا کہ "اگر یہ دنیا جیسی کہ یہ ہے، ایسی نہ ہوتی تو ۔۔۔۔۔؟" تو پھر ہماری زندگیوں پر کیا اثر پڑتا؟ کیا ہم نفسیاتی، عملی یا سماجی زندگی میں بالکل مختلف روپ اختیار کرلیتے؟ کیا ہم زیادہ کامل ہوجاتے؟ اگر ہمیں یہ پتہ چل جاتا کہ ہم بہت بدل چکے ہیں کیا اس سے یہ ظاہر نہ ہوجاتا کہ ہمارا داستانی عقیدہ کسی حد تک درست تھا، یہ ہمیں ہماری انسانیت کے بارے میں بہت اہم بات بتا رہا تھا، اگرچہ اس وقت ہم اسے عقلی طور پر ثابت نہیں کرسکتے تھے۔
انسان اپنے کھیل کھیلنے کے جذبے کو برقرار رکھنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ اسے قید و بند کے مصنوعی طور پر پیدا کردہ حالات میں زیادہ عرصہ نہ رکھا گیا ہو۔ جبکہ دیگر جاندار جنگل کی کڑی حقیقتوں سے دوچار ہونے کے بعد اپنے کھیل کود کے جذبے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ تاہم بالغ انسان بچوں کی طرح تصوراتی دنیائیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ آرٹ کے شعبے میں ، جسے ہم معقولیت اور منطق کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرالیتے ہیں، نئی شکلیں شامل کرکے اپنی دلچسپیوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور یقین کرلیتے ہیں کہ یہ شکلیں ہمیں اہم معلومات فراہم کرتی ہیں، جو بے حد "سچی" ہیں۔ ہم داستانوں میں بھی اپنی قیاس آرائیاں شامل کرکے اپنی دلچسپیاں دو چند کرلیتے ہیں۔ ان قیاسات پر عمل کرتے ہیں اور ان کی بدولت اپنی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ پھر ان سے ہم پر انکشاف ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی دنیا کی تکلیف دہ الجھنوں کے بارے میں نئی بصیرت حاصل کرلی ہے۔
اس لیے ہم کسی داستان یا یومالا کو اس لیے سچی سمجھتے ہیں کہ یہ مؤثر ثابت ہوتی ہے، نہ کہ اس لیے کہ یہ ہمیں حقیقی صورت حال سے مطلع کرتی ہے۔ تاہم اگر یہ زندگی کے گہرے معنوں کے بارے میں ہمیں نئی بصیرت سے آشنا نہیں کرتی تو یہ فیل ہوجاتی ہے۔ اگر یہ نئی بصیرت عطا کردیتی ہے اور ہمیں مزید بھرپور زندگی کی راہ پر ڈال دیتی ہے تو اسے ایک معقول داستان قرار دیدیا جاتا ہے۔
داستان ہماری کایا کو اسی وقت پلٹے گی جب ہم اس کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ ایک داستان یا دیومالا، دراصل ایک رہنما ہی ہوتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں ایک کامیاب و کامران زندگی گزارنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اگر ہم اسے اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے، اپنی زندگی کو اس کی ہدایات کے مطابق نہیں ڈھالتے تو یہ اسی طرح ناقابلِ فہم اور دور از کار ہوگی جیسے بورڈ گیم کے رولز ہوتے ہیں۔ جو بسا اوقات اس لمحے تک ناقابلِ فہم اور بے لطف محسوس ہوتے رہتے ہیں، جب تک ہم کھیلنا شروع نہیں کردیتے۔
دورِ جدید میں ہم نے داستان سے جتنی بے اعتنائی اور دوری اختیار کی ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پرانے زمانے میں داستان یا دیومالا کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھا جاتا تھا، اس سے لوگوں کو نہ صرف اپنی زندگی کے مفہوم سے آگاہی حاصل ہوجاتی تھی بلکہ اس سے انسانی ذہن کے ایسے گوشے بھی منکشف ہوتے تھے، جو بصورت دیگر ہمیشہ ناقابل رسائی رہتے۔ یہ دراصل اس دور کے علم نفسیات کی ایک شکل ہوتی تھی۔ دیوتاؤں یا سورماؤں کی کہانیاں یہ بتاتی تھیں کہ دیوتا یا بہادر لوگ کس طرح پاتال (underworld) میں اتر کر بھول بھلیوں کو کھگالتے اور راکھشسوں سے لڑتے ہیں۔ یہ اس دور کے لوگوں کو نفس انسانی کے طریق کار سے آگاہ کرتیں اور انہیں ان کے داخلی بحرانوں پر قابو پانے کی راہیں سمجھاتی تھیں۔ جب فرائیڈ اور یونگ نے روح کی گہرائیوں کو ناپنے اور چھپے ہوئے اسرار معلوم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تو انہوں نے جبلی طور پر کلاسکی داستانوں سے رجوع کیا اور انہی کی مدد سے لوگوں کو اپنے معلوم کردہ حقائق سے آگاہ کیا۔ اس طرح پرانی داستانوں کو نئی تعبیر مل گئی۔
اس اساطیر اور داستانوں میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کسی داستان کی کوئی واحد مسلمہ روایت کبھی موجود نہیں رہی۔ جوں جوں حالات تبدیل ہوتے رہے ہیں، ہمیں اپنی کہانیاں مختلف طریقوں سے بیان کرنے کی ضرورت پرتی رہی ہے۔ اس طرح وقت کی قید سے ماورا ایک سچائی کا وجود برقرار رہا ہے۔ ہم داستان یا دیو مالا کی اس مختصر تاریخ میں یہ بتائیں گے کہ لوگوں نے جب بھی ایک بھرپور قدم اٹھایا انہوں نے داستان کو اپنے وقت کے مطابق ڈھالا اور داستان کے کردار نئے حالات کے مطابق اندازِ بیان اختیار کرتے رہے۔ ساتھ ساتھ ہم یہ بھی بتائیں گے کہ انسانی فطرت میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آتی۔ ماضی کے جن معاشروں نےیہ کہانیاں وضع کیں وہ ہم سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھے، اس لیے یہ اب بھی ہماری خواہشات اور خدشات سے مطابقت رکھتی ہیں۔
نوٹ:
یہ مضمون کیرن آرم سٹرانگ کی کتاب “A short history of Myth” کے اردو ترجمہ بعنوان "داستان کی مختصر تاریخ" سے لیا گیا ہے۔ جسے محمد یحییٰ خان نے اردو قالب دیا ہے۔