تین کروڑ پچھتر لاکھ کردوں کی اکثریت ترکی،عراق، شام اور ایران کے ان علاقوں میں آباد ہے جو کردوں میں کردستان کے نام سے مشہور ہے۔ اسکے علاوہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کردوں کی آبادی ایک کروڑ ہے۔ کرد ساتویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔
دوسری صلیبی جنگ کے عظیم فاتح حکمران صلاح الدین ایوبی ( جو کرد نژاد ہیں کا تعلق بھی صدام حسین کے آبائی شہر تکریت سے تھا ) جنہوں نے بارہویں صدی میں تیونس سے لیکر بحیرہ کسپئین کے ساحل تک وسیع مملکت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے بعد کسی بھی کرد رہنما کو کردوں کیلئے اپنی آزاد مملکت قائم کرنے کو موقع ہی نہ مل سکا۔ترکی کے مشرقی علاقے ’’کوہ آعری‘‘ میں حضرت نوح علیہ اسلام کی کشتی اور اور ان کی دس گز لمبی قبر کے نشان کی وجہ سے کرد باشندوں کا تعلق حضرت نوح علیہ سلام کی اولاد سے بتایا جاتا ہے۔
کردوں میں یزدانی اور یزیدی عقائد کے کئی فرقے ہیں لیکن اکثریت ان کی سنی شافعی عقیدے سے تعلق رکھتی ہے۔
ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانے پر زبردستی خراسان سےجلا وطن کردیا تھا.
اور پھر انیس سو چھیالیس میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور کردوں نے’’ مہا آباد جمہوریہ‘‘ کے نام سے پہلی کرد مملکت قائم کی جو جلد ہی زمین بوس ہو گئی اور اسکے بانی قاضی محمد کو کھلے عام پھانسی دیدی گئی۔ رضا شاہ پہلوی دور میں ایران میں کردی زبان بولنے پر پابندی عائد کردی گئی.
اور 1979ء میں آیت اللہ خمینی نے کردوں کیخلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے کردوں کی کارروائیوں کو مکمل طور پر کچل دیاا۔ اسی طر ح 1960ء تا 1975ء تک شمالی عراق میں کردوں نے مصطفیٰ برزانی (مسعود برزانی کے والد) کی قیادت میں اپنی جدو جہد کے نتیجے میں خود مختاری حاصل کی.
لیکن 1991ء میں صدر صدام نے اس علاقے پر اپنی مکمل حاکمیت قائم کرتے ہوئے کردوں پر ایسے ظلم ڈھائے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے- اس دوران عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی لیکن کردوں کیخلاف کارروائی جاری رہی. اور جنگ کے خاتمے پرحکومتِ عراق نے 1988ء میں کردوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے انکے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میںہزاروں کی تعداد میں کرد مارے گئے۔