کڑے احتساب کے بغیر کچھ ممکن نہیں ۔
میں جب پروگرام مقابل دیکھتا ہوں اور رؤف کلاسرا کا کرب اور اضطراب جب وہ اربوں کے گھپلے بتا رہے ہوتے ہیں ۔ میرے دل سے ان کی صحت کے لیے بہت ساری دعائیں نکلتی ہیں ۔ امید ہے وہ روز کی ایک baby aspirin تو لیتے ہی ہوں گے ۔
۸۰ کی دہائ سے ضیاالحق کے کرپشن کے بوئے ہوئے بیج آج نہ صرف توانا درخت بنے ہوئے ہیں بلکہ لاکھوں بچے دے چکے ہیں ۔ کوئ محکمہ ایسا نہیں ، کوئ ادارہ ایسا نہیں کوئ صوبائ حکومت ایسی نہیں جو صرف اور صرف کرپشن کی بنیاد پر نہ چلتی ہو ۔
ہیروئن اسمگلنگ سے یہ معاملہ شروع ہوا اور پھر چل سو چل ۔ ۸۰ کی دہائ کے آخر میں فائننس کارپوریشنوں نے ۵۰% تک شرح سود کا کہ کر لوگوں کو لُوٹا ۔ پھر کوآپریٹوز نے تو کمال ہی کر دی ۔ چوہدریوں جیسے سیاست دان ارب پتی بنا دیے ۔ اتفاق گروپ کے قرض بھی کچھ کم نہیں تھے ۔
ایمنیسٹی اسکیمیں شروع ہو گئیں ، حکومتوں کی سرپرستی میں اربوں روپے کا کالا دھن سفید کیا گیا ۔ پھر قرض اتارو ملک سنوارو جیسے نعرے لگا کر اربوں جیبوں میں ڈالا گیا ۔ ڈار صاحب المعروف ماروی میمن نے راتوں رات فارن ایکسیمج فریز سے کروڑوں ڈالر بنائے ۔
مشرف صاحب آگئے ، فرماتے ہیں میں نے نواز شریف کو اس لیے مارا نہیں تھا کہ لوگوں کو پتہ لگے یہ کتنا گندا ہے ۔ جناب اس لیے نہیں مارا کہ آپ نے اس سے بھی ہزاروں درجہ زیادہ گند کرنے تھے ۔ اس لئے اس کو ملک بدر کیا ۔ جنرل امجد جن کو بہت اچھا سمجھا جاتا ہے انہوں نے اپنے بیچ میٹ اور دوست میجر عاصف کے کہنے پر اقبال زیڈ ایم سے ڈیل کی ۔ اعتزاز احسن ، میجر عاصف JJVL پراجیکٹ میں شیئر ہولڈر ہیں ۔ میں تو حیران ہوں کہ اینگرو کا سی ای او ، JFK پر شاہد خاقان عباسی کو لینے کیوں نہیں آیا لیکن شاید پھر وزیر اعظم بلکل ہی ننگا ہو جاتا ۔ مشرف دور میں بھی بہت دلیری سے راشیوں نے چھکے لگائے ۔ مشرف کے لیے ایک مجرے کی محفل رکھتے اور جو چاہتے کروا لیتے ۔ مشرف بہت اچھے طبلچی تھے ، طبلہ بجاتے بجاتے ملک کی ہی بجا دی ۔ کہیں ڈبل شاہ سے لوگوں کو لٹوایا اور کہیں میڈموں سے۔
حبیب بینک اور پی ٹی سی ایل اونے پونے بیچ دیا حالانکہ دونوں ادارے فائیدے میں جا رہے تھے ۔ یو بی ایل بھی دوستوں میں بانٹ دیا ۔
ڈی ایچ ایز میں فراڈ اور بدمعاشی کی بنیاد بھی مشرف کے جنرل ضرار عظیم اور جنرل مہدی جیسے چمچوں نے رکھی ۔ راحت بیکری کے عقب مال آف لاہور کے پاس آج بھی بورڈ کا این او سی نہیں لیکن جرنیلوں کو لگژری سیوٹ مل گئے ۔
indirect taxation کا رواج بھی مشرف صاحب نے ڈالا ایک کھلونا موبائل لوگوں کے ہاتھ میں دے کر کہا بیٹا یہ خود بھی بجے گا اور آپ کی بھی بجائے گا ۔ ہر چیز پر ٹیکس ۔ شوکت ترین صاحب پھر پر تول رہے ہیں اس طرح کے اور ڈراموں کے ۔
مشرف کے جانے کے بعد دس سالہ سیاسی دور اور اس کے گند تو آپ سب کے سامنے ہے ۔ کہیں پینشنرز کا اربوں روپیہ کھایا گیا ۔ کہیں ملک ریاض کے زریعہ سرکاری املاک اس بدمعاش کو دے کر پراپرٹی سے کھربوں کمایا گیا ۔ اس وقت کے آرمی چیف کے بھائ تو شہدا کا گیارہ ارب کھا کر دوڑ گئے ۔
آج کل ملک ریاض اتفاق فائونڈری والی جگہ پر شریفوں کے لیے ہاؤسنگ ہراجیکٹ بنا رہے ہیں ۔ ملک ریاض ہر ایک کا سگا ، زرداری کا بھی ، شریفوں کا بھی ، فوج کا بھی اور رنڈی کا بھی ۔ اور اتنی ڈھٹائی اور بے شرمی ہے اس میں اگلے دن اینکر کو کہ رہا تھا تم زرا کاروبار کر کے دیکھو تمہے پتہ لگے کیسے کرپشن کے بغیر کاروبار ناممکن ہے ۔ اور وہ اینکر بجائے اس کے دانت توڑنے کے شرم سے اپنی بھتیسی لوگوں کو دکھا رہا تھا ۔
جناب نہ اس ملک میں الیکشن چاہیے ، نہ کوئ ریفرینڈم نہ کوئ اصلاحات بلکہ ڈنڈا ۔ یہ سارے ڈنڈے کے پیر ہیں ۔ اس کے سوا کوئ چارہ نہیں ۔ یہ ملک آخری سانسوں میں ہے ۔ مزید لوُٹا نہیں جا سکتا ۔ نیب جتنی مرضی ایکٹو ہو جائے ، چیف جسٹس الٹ بازیاں لگا لے اگر ٹھیک کر جائے میرا نام بدل دے ۔ چیف جسٹس سے تو دو عدد اپنے گندے انڈے ہائیر جیوڈیشری کے نہیں نکل رہے باقی تو کیا کرنا ۔
اس وقت سارا زور نواز شریف کو سزا پر ہے ، جیسے اس کے بعد فرشتے حکومت کریں گے ۔ ہنسی آتی ہے ۔ صفائ ستھرائ کا پلان کسی کے زہن میں نہیں ۔ جناب اس سے کچھ نہیں ہو گا نواز ہیرو بنے گا ۔ سب کو بلا امتیاز لٹکانا ہو گا اور وہ بھی بجلی کے کھمبوں کے ساتھ اگر ملک بچانا ہے ۔ وگرنہ ۲۲ کروڑ سمیت آپ سب بھگتیں گے حالات باہر بھی فراڈ یوں کے لیے اچھے نہیں ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔