آج – ٨؍اگست ١٩٩٠
ادیب ، مترجم ،صحافی اور مرزا غالبؔ کے شاگرد اور ممتاز شاعر” کرار نوریؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
کرار نوری کا اصل نام سیّد کرار مرزا تھا۔ وہ غالبؔ کے شاگرد آگاہ دہلویؔ کے پر پوتے تھے اور ٣٠ ؍جون ١٩١٦ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پہلے راولپنڈی اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی جہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔
کرار نوریؔ کا شعری مجموعہ ’’میری غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے اس کے علاوہ ان کی نعتوں کا مجموعہ ’’میزانِ حق‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔ وہ ٨؍ اگست ١٩٩٠ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
ممتاز شاعر کرار نوریؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار خراجِ عقیدت…
اب بھی آزاد فضاؤں کا نہ امکاں نکلا
بابِ گلشن جسے سمجھے درِ زنداں نکلا
—
شہر میں تنہا تھا لیکن کرب تنہائی نہ تھا
گھر سے باہر رہ کے میں اتنا تو سودائی نہ تھا
—
ہر چند اپنا حال نہ ہم سے بیاں ہوا
یہ حرف بے وجود مگر داستاں ہوا
مانا کہ ہم پہ آج کوئی مہرباں ہوا
دل کانپتا ہے یہ بھی اگر امتحاں ہوا
—
تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہو گئے
شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہو گئے
—
فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی
بھوک کی آگ نے لہجے میں تمازت بھر دی
—
مانا کہ ہم اس دور کا حاصل تو نہیں تھے
ناقدریٔ دنیا کے بھی قابل تو نہیں تھے
—
اک بار توجہ سے کوئی بات تو سن لو
پھر چاہے کبھی ہم سے ملاقات نہ کرنا
آسان ہے جاں دینا کسی بات پہ نوریؔ
دشوار ہے اظہارِ خیالات نہ کرنا
—
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا ہی چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا، میرے بعد
—
مانا کہ ہم اس دور کا حاصل تو نہیں تھے
ناقدریٔ دنیا کے بھی قابل تو نہیں تھے
آتا تو سہی بادِ سحر کا کوئی جھونکا
ہم خاص کسی پھول پہ مائل تو نہیں تھے
کرار نوریؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ