کرامتی بندے
دنیا میں اب چند ہی قومیں ایسی ہونگی جو پریوں جنوں والی کہانیوں پر یقین رکھتی ہونگی۔ معجزوں ، کرامتوں کو مانتی ہونگی۔ ہم پاکستانی انہی میں سے ایک ایسی قوم ہیں جو خاکستر سے پرندے کے زندہ ہو کر اڑ جانے پر ایمان لے آتے ہیں۔
مگر یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ وقت سے پیچھے رہ جانی والی آبادی جس کا دو تہائی کتاب کی شکل نہ دیکھ پائے، علم تو دور کی بات اس کے لیے دنیا ایک بند کوئیں کا سوراخ ہے جہاں سے نیلا آسمان دکھتا تو ہے، سمجھ کچھ نہیں آتا۔
حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ معجزوں پر یقین رکھنے والی قوم کے افراد گاہے معجزہ برپا کر دیتے ہیں۔ ششدر میں سوچتا ہوں کہ کیا ہو اگر یہ سب افراد واقعی ایک قوم بن کر ترقی کی جانب قدم بڑھائیں، دنیا کی قیادت کی جگہ ہمیشہ سے خالی رہتی ہے، ایسی معجزاتی طاقت رکھنے والوں کے لیے۔
بات کو سمجھاتا ہوں۔
باقی دنیا کے ممالک محنت، مسلسل محنت سے ترقی کرتے ہیں اور منزل کو پا لیتے ہیں۔ ہر شعبے میں ترقی کرنے کے لیے انہوں نے مسلسل محنت سے ایک نظام قائم کیا۔ ایک اسٹریٹیجی بنائی، اور اپنی نسلیں اس پر لگا دیں۔ اور بالاخر کوئی قوم الیکٹرانکس کی دنیا میں چیمپئین بن گئی، تو کسی نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں اپنا لوہا منوا لیا۔ کسی نے فٹ بال میں سر پر تاج سجایا تو کوئی ٹینس میں دنیا کو نت نئے آسمان دکھانے لگا۔
پاکستانی قوم کی بات مگر اور ہے۔ باقی پسماندہ ممالک کی طرح یہ زبوں حال تو ہیں مگر پیچھے بھی نہیں ہیں، اور نہ ہی قائدانہ کردار اپنی مسلسل محنت سے حاصل کر پائے ہیں۔ کسی شعبے میں بحیثیت قوم مسلسل کامیابی کا کوئی ریکارڈ بھی انکی جھولی میں نہیں ہے۔
مگر ہوتا کیا ہے کہ مسلسل محنت اور کوشش سے کرکٹ کے چیمپئنز بننے والی ٹیموں کو یکدم نیچے کے نمبروں سے اٹھ کر نئے اور ناتجربہ کار کھلاڑی پچھاڑ ڈالتے ہیں۔ اور دنیا کے چیمپئینز دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
مگر ہوتا کیا ہے کہ سکواش کے آسمان پر چمکنے والی قوموں کو پاکستان سے دو پٹھان جا کر دہائیوں تک خجل خوار کرتے رہتے ہیں۔ جن میں سے ایک کو ڈاکٹر کھیلنے کیا، چلنے پھرنے سے معذوری کی وارننگ دیتے تھے۔
مگر ہوتا کیا ہے کہ برسوں یورینیم افزودہ کرنے والی قومیں حیرانی سے دیکھتی رہ جاتی ہیں اور صرف ایک پاکستانی اپنے ذہن میں ایٹمی فارمولا رکھ کر واپس اپنے ملک کو ایٹمی قوت بنا دیتا ہے۔
مگر ہوتا کیا ہے کہ ایک معمولی ذہانت والا شخص دنیا کی سب سے بڑی ایمبیولینس سروس محض خیرات کے پیسے پر کھڑی کردیتا ہے۔ اور ویلفئیر والی قومیں بھی دیکھتی رہ جاتی ہیں۔
مگر ہوتا کیا ہے کہ مذہبی پسماندگی کے طعنے سننے والی قوم اسلامی جمہوری دنیا کی پہلی سربراہ خاتون چن لیتی ہے۔
مگر ہوتا کیا ہے کہ اسکے سرجنز دنیا میں ترقی یافتہ قوموں کے ہسپتالوں میں جا کر اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے لگتے ہیں۔
مگر ہوتا کیا ہے کہ ہر جمہوری دور کے الٹائے جانے پر دنیا بھر سے پسماندگی کے طعنے سننے والی قوم ہر چند سال پر آمریت کا طوق گلے سے اتار پھینکنے مین کامیاب ہوجاتی ہے، جبکہ اسلامی ممالک میں تیس چالیس سال کی آمریتی جمہوریتوں کی مثالیں موجود ہیں۔
اسی قوم نے پچھلے چند سالوں میں جمہوری دنیا میں نئی مثالوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ تلاش کیجیے کتنے ملک ہیں جہاں دہشتگردی بھی عروج پر ہو اور انتخابات کی باقاعدگی کی دوسری نصف دہائی بھی مکمل ہو چکی ہو۔
تلاش کیجیے، کتنے اسلامی ممالک ہیں جہاں ووٹ کی عزت اس طرح سے دی گئی ہو کہ ووٹ کی آڑ میں ملک دشمنی کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا ہو۔
تلاش کیجیے کتنے ایسے جمہوری ممالک ہیں جہاں دو جماعتی نظام میں ایک نئی جماعت ابھر کر سامنے آ گئی ہو اور پھر پورے ملک کی اکثریتی جماعت بن گئی ہو۔
بات لمبی ہوگئی، مگر اس قوم کی خاکستر سے پھوٹنے والے چنگاریوں کی داستان ابھی باقی ہے۔
خدا کرے کہ کرامتی بندوں کی یہ قوم واقعی یکجان ہوجائے۔ اپنے قومی جسد سے بیماریوں کو اکھاڑ پھینکنے اور ایک نئی دنیا کی اپنے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے تعمیر پر اکٹھا ہو جائے۔ تاکہ دنیا دیکھ سکے کہ ہم پاکستانی واقعی دنیا کی چھت (کے ٹو ) اور زرخیز ترین وادی سندھ کے باشندے ہیں۔
پاکستانی قوم زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“