قراقلی !
قراقل کیا ہے؟
قصہ قائد اعظم کے جناح کیپ پہننے کا!
امریکی خاتون اول جیکولین کینیڈی نے ایوب خان کی قراقلی پہنی!
کیا قراقلی پہننا مکروہ ہے!
قراقلی ٹوپی کی تیاری ایک انتہائ ظالمانہ فعل!
قراقلی کی تیاری و خریدوفروخت پر پابندی لگنی چاہئے!
جناب شریف فاروق کی شہرہ
آفاق تصنیف ”برصغیر کا مرد حریت قائداعظم جناحؒ“ کے صفحہ نمبر 194 میں سے ایک پیراگراف یہاں نقل کرتا ہوں۔
14 اکتوبر 1937ءمیں لکھنئوکے اندر مسلم لیگ کا ایک اجلاس ہوا تھا۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے شریف فاروق لکھتے ہیں." لکھنئو مسلم لیگ کا یہ اجلاس بڑی بنیادی اہمیت کا حامل ثابت ہوا۔ اس اجلاس کے بعد قائداعظم نے کاملاً انگریزی لباس ترک کر دیا۔ ہوا یوں کہ جب مسٹر جناح صبح کے وقت جلسہ
عام سے خطاب کرنے کیلئے روانہ ہونے لگے تو انہوں نے دیکھا کہ نواب اسماعیل خان نے سیاہ رنگ کی قراقلی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ انہوں نے نواب صاحب سے کہا کہ وہ انہیں ذرا اسے پہن کر دیکھنے دیں جب وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے تو انہیں شلوار اور اچکن کے ساتھ قراقلی بہت بھلی لگی چنانچہ انہوں نے یہ ٹوپی پہننا شروع کر دی۔ یوں اسے بھی لیڈر کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ قبول عام کا درجہ حاصل ہو گیا"..
.قراقلی ٹوپی
کراکل یا قراقل دراصل وسطی ایشیا کے صحرائ علاقوں میں پائ جانے والی ایک بھیڑ کی نسل کا نام ہے۔ اس بھیڑ کو یہ نام ازبکستان کے صوبہ بخارا کے ایک شہر قوراکول سے نسبت کے طور پر دیا گیا ہے۔اس بھیڑ کے نوزائیدہ بچے کی کھال سے تیار کی جانے والے ٹوپی قراقلی کہلاتی ہے۔ اون کی وہ قسم جس سے یہ ٹوپی تیار کی جاتی ہے عرف عام میں استر، استرخان، براڈ ٹیل، قاراقولچا یا ایرانی مینڈھا کہلاتی ہے۔ قراقل کا لفظی مطلب کالی اون ہے۔ جو کہ ترک زبان کا لفظ ہے۔ ٹوپی لمبوتری اور اس کے کئی حصے ہوتے ہیں اور سر سے اتارنے پر یہ سیدھی بھی کی جا سکتی ہے۔
قراقلی عام طور پر وسط ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کے مسلمان مرد پہنتے ہیں۔ حامد کرزئی جو کہ افغانستان کے سابقہ صدر تھے قراقلی پہننے والے حالیہ دور کی مشہور شخصیت ہیں۔ افغان مردوں میں یہ ٹوپی نہایت مشہور ہو گئی ہے۔
.قراقلی کی تیاری ایک سفاک اور ظالمانہ طریقہ:
قراقلی پہننے والے اکثر افراد یہ نہیں جانتے کہ اس ٹوپی کو بنانے کے لئے کیسا ظالمانہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے
تقریبا" 80 فیصدی قراقلی نارمل طریقے سے تازہ پیدائشی بھیڑ کے بچے یعنی پیدا ہوتے ہی اس کی کھال اتار کر تیار کی جاتی ہے ۔
نوزائیدہ قراقل کی کھال سے ٹوپی تیار کرنے کہ وجہ یہ ہے کہ اس کی کھال پر بال سیدھے نہیں بلکہ سخت گھنگریالے ہوتے ہیں جو ایک خاص طرح کا ڈیزائن یا پیٹرن لئے ہوتے ہیں۔ اس ایک گھنگریالے لچھے کی پھول یا کلی نما ساخت ہوتی ہے۔ جبکہ ایک خاص قسم کی قراقلی حاصل کرنے کیلئے حاملہ بھیڑ کو قبل از وقت بچے کی پیدائش پر مجبور کیا جاتا ہے عموما" شکاری کتے اس کے پیچھے دوڑا کر اسے تیز دوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے . تیز دوڑنے اور کتوں سے خوفزدگی کی وجہ سے بھیڑ بچے کو جنم دے دیتی ہے . ایسے میں ماں کو نوزائیدہ بچے کو چاٹنے نہیں دیا جاتا کیونکہ پھر بچے کی کھال کا پھول کھل جاتا ہے اور قراقلی پر مخصوص ڈیزائن نہیں ابھرتا . نوزائیدہ بچے کو ذبح کردیا جاتا ہے اور اس کی کھال سے نہایت قیمتی قراقلی تیار کی جاتی ہے .
پاکستان ، افغانستان میں تو صرف قراقلی ٹوپی کیلئے بھیڑ کی کھال استعمال کی جاتی ہے ، ظلم تو یورپ والے کرتے جو لمبے لمبے لیڈیز کوٹ بھی بڑی مقدار میں اسی کھال سے بناتے ہیں اور عموما" ایسے ہی ظالمانہ طریقے وہاں بھی رائج ہیں .
تحریک پاکستان کی مرکزی شخصیت محمد علی جناح نے آخری عمر میں اس ٹوپی کو استعمال کیا ان کو یہ ٹوپی ایسی جچی کہ اس کا ایک متبادل نام جناح کیپ بھی بن گيا۔بلوچستان، صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر کے عمر رسیدہ افراد میں خاص طور پر مشہور ہے۔ �جناح کیپ کی ایک اور مشہور شکل رام پوری کیپ بھی ہے، جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان پہنا کرتے تھے۔ �قراقلی کبھی بھی سیدھی نہیں پہنی جاتی، بلکہ یہ سر پر ترچھی رکھی جاتی ہے۔ افریقہ میں تیندوے کی کھال کے طرز کی جناح کیپ نہایت مشہور ہے، لیکن یہ افریقی نژاد امریکیوں میں اتنی مشہور نہیں ہے۔ ایڈن مرفی نے اپنی مشہور فلم “کمنگ ٹو امیرکا“ میں قراقلی پہنی ہوئی تھی۔
قراقلی پہننا مکروہ!
افغان علماء جناح کیپ کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قراقلی ہیٹ (جناح کیپ) ایسی کھال سے بنائی جاتی ہے جو شقاوت انسانی اور گندگی کی بدترین مثال کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔تحقیق کے مطابق قراقلی کیپ حاملہ بھیڑ کو ذبح کرکے اس کے پیٹ میں موجود نوزائدہ بچے کو ذبح کرکے اور بعض روایات کے مطابق زندہ حالت میں میں اس کی کھال اتار کر بنائی جاتی ہے۔سلسلہ سیفیہ کے بانی افغان پیر ارچی حضرت اخوندزادہ سیف الرحمن مبارک کے ایک نامورخلیفہ شیخ القرآن و الحدیث اورمفتی کے مطابق ان کے مرشدنے علما و مشائخ کو قراقلی ٹوپی کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع فرمایا تھا،مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ نماز میں پاکیزگی شرط ہے اور لباس کا کوئی حصہ گندگی کا شکار نہیں ہونا چاہئے جبکہ بہت سی مذہبی شخصیات انجانے میں قراقلی ٹوپی پہن کر نماز ادا کرتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ بھیڑ کے بچے کو ذبح کرکے جب اس کی کھال اتاری جاتی ہے تو اس پر سلوٹیں ہوتی ہیں لہذا اسے دھویا نہیں جاتا۔ جس سے بھیڑ کا فضلہ کھال پر لگا رہ جاتاہے۔ اس فضلے کو دھویا اس لیے نہیں جاتا کہ اس سے سلوٹیں ختم ہو جاتی ہیں اور یہ سلوٹیں اور نزاکت ہی قراقلی ٹوپی کا خاصاہوتی ہیں۔پاکستانی علما ء کے نزدیک قراقلی ٹوپی پہننا مباح ہے اوراس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
قراقلی کوٹ،بیگز اور جوتے وغیرہ بھی بنائے جاتے اور انہیں استعمال کرنا فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔قراقلی کھال افغانستان اورسنٹرل ایشیاء کی معروف پراڈکٹ ہے لیکن کشمیر میں بھی اس کو تجارتی پیمانے پر مقبولیت حاصل ہے۔دنیا کے کسی خطے میں بھی قراقلی ٹوپی کو مذہبی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا گیا،ترکوں میں یہ جتنی مقبول ہے افغانوں میں بھی اتنی ہی محبوب ترین ہے‘جبکہ سینٹرل ایشیا میں سمور ہیٹ کے علاوہ قراقلی ٹوپی یا ہیٹ کو ہر دور کے حکمران نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور پہنا،یہ ترکوں کے عظیم اتاترک ہوں یا سابق سوویت یونین کے صدر برزنیف،پاکستان کےقائد اعظم ہوں یا افغانستان کے شہنشاہ ظاہر شاہ اور صدرحامد کرزئی،جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد ہوں یاکئی مقبول سلاسل کے پیران کرام ،بہت سوں نے قراقلی ٹوپی کوسر کی زینت بنایا ۔
یاد رہے کہ سن 1962 میں جب اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی بیوی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو امریکی خاتون اول جیکولین کینیڈی نے دورہ خیبر کے دوران بڑے پیار سے ایوب خان کی قراقلی اپنے سر پر رکھ کر تصاویر بنوائ تھیں۔
پشاور کا قصہ خوانی بازار چند سال قبل قراقلی ٹوپی بنانے کا بڑا مرکز تھا۔ تقریباً بیس سال پہلے اس بازار میں قراقلی بنانے کی تیس سے چالیس دوکانیں موجود تھیں تاہم وقت گزرنے کے سا تھ اب یہاں تین چار دوکانیں رہ گئیں ہیں اور یہ کاروبار اب خاتمے کے قریب ہے۔
قصہ خوانی بازار میں ایک دوکان سرحد قراقلی ہاؤس کے نام سے اب بھی موجود ہے۔ دکان کے مالک۔
ابراہیم نے بتایا کہ قراقلی ٹوپی پہننے کی روایت کم ہونے کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں لیکن اس کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں جنگ بھی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ٹوپی جس خاص قسم کی کھال سے تیار ہوتی ہے اس کے مراکز افغانستان کے شمالی صوبوں میں ہیں اور وہاں جنگ چھڑنے کی وجہ سے کھال کی درآمد بند ہو گئی ہے۔
میری اپنی ذاتی رائے تو یہی ہے کہ قراقلی ٹوپی کی تیاری اور خریدو فروخت پر پابندی لگنی چاہئے۔ ہم اس نبی ص کی امت ہیں کہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانورں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور بدسلوکی کوعذاب وعقاب اور سزا کی وجہ گردانا او رانتہائی درجہ کی معصیت اور گناہ قرار دیا او رانسانی ضمیر جھنجوڑنے والے سخت الفاظ استعمال فرمائے؛ چنانچہ حضرت امام بخاری نے روایت نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ بلی کو باندھ کر رکھتی تھی نہ کھلاتی نہ پلاتی اور نہ اس کو چھوڑ دیتی کہ چر چگ کر کھائے(مسلم : باب تحریم قتل الہرة : حدیث: ۵۹۸۹)
حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گذرا ، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا :اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے(مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ، حدیث:۵۶۷۴)
اور ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے(مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ، حدیث:۵۶۷۴)ا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ گھریلو جانورں کے ساتھ بدسلوکی اوربے جا مارپیٹ کی ممانعت کی ؛ بلکہ غیر پالتو جانوروں کو بھی بے جاپریشان کرنے ، چھیڑ خوانی کو منع فرمایا :
حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایاہے(ترمذی : باب کراہیة التحریش بین البہائم : حدیث: ۱۷۰۹)حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے جب ایک موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا کو دیکھا جس کے ساتھ دو بچے تھے ہم نے ان دونوں بچوں کو پکڑ لیا ، اس کے بعد چڑیاآئی اور اپنے بچوں کی گرفتاری پر احتجاج کرنے لگی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حمرہ کو اس طرح بیتاب دیکھا تو فرمایا کہ کس نے اس کے بچوں کو پکڑ کر اس کو مضطرب کر رکھا ہے؟ اس کے بچے اس کو واپس کردو(ابوداوٴد: باب فی کراہیة قتل الذر ، حدیث۵۲۶۸)
تو پھر کیسے ممکن ہے کہ بھیڑ کے نوزائیدہ بچے کو مار کر تیار کی جانے والی ٹوپی نبی کریم ص کے نزدیک کوئ پسندیدہ یا جائز فعل ہوسکتا ہے۔
(حوالہ جات:اس آرٹیکل کی تیاری میں شاھد نذیر چودھری کے کالم ، وکیپیڈیا، بی بی سی، اور دیگر کچھ ویبسائٹس سے مدد لی گئ ہے۔)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔