(Last Updated On: )
اکثر یہ سننے میں آتا تھا کہ فلاں سرکاری ادارے میں آگ لگ گئی آگ لگنے کے باعث ہزاروں فائلیں جل کر خاکستر ہوگئیں جس سے قیمتی ڈیٹا ضائع ہوگیا۔
سوشل میڈیا کی بدولت یہ کہانیاں ذیادہ پائیدارثابت نا ہوسکیں شہریوں نے موقع کی وڈیوز اور تصاویر بنا کر قارئین اور سامعین کو حقیقت سے آگاہ کرتے رہے۔ بعد میں تحقیقاتی ٹیم نے بھی اس بات کا عندیہ دیا کہ یہ آگ لگنے کے واقعات خود ساختہ تھے جس سے بہت سے مجرموں کو تحفظ فراہم کیا جانا تھا یا ان کے معاملات میں سہولت کاری فراہم کرنی تھی۔ یہ الگ بات ہے بہت سی رپورٹس منظرعام آئی نہیں یا لائی نہیں گئی۔ کچھ سیاسی دباوّ کے تحت تو کچھ مصلحت کے تحت چھپا دی گئی یا دبا دی گئی۔ وقت و حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان فائلوں اور ڈیٹا کو آن لائن کیا جانے لگا جس سے خاطر خواں کامیابی بھی ملی کے سرکاری اداروں میں آگ لگنے کی واقعات کا تقریبآ خاتمہ ہی ہوگیا۔
چند دنوں سے آئے روز بلکہ دن میں کئی کئی بار یہ خبریں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ شہر کی فلاں مارکیٹ میں آگ گئی۔ ذیادہ تر واقعات ضلع جنوبی میں دیکھنے کو ملے کیونکہ وہاں ذیادہ ترتجارتی اور پرہجوم مراکزہیں، بعض نے پرانی عمارتوں اور شارٹس شرکٹ کا عندیہ دیا تو کسی نے خودساختہ، تو کسی نے دہشت گردی کا شاخسانہ بتایا۔ غرض جتنی منہہ اتنی ہی باتیں۔
بہرحال وجہ جو بھی ہو اس میں کراچی کے تاجروں کا اربوں کا نقصان ہوا جہاں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی رکھنے والوں تاجروں کئی سال پیچھے دھکیل دیا وہیں مہنگائی میں اضافہ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ آمدن سے ذائد اخراجات جن میں بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی جو کہ ان ہی تاجروں کی بدولت ملتی ہیں مہنگی سے مہنگی ترین ہوتی جا رہی ہیں۔ تو دوسری جانب تاجروں میں عدم تحفظ جن میں تاجروں کا اغواء، بھتہ خوری لاقانونیت اور اسٹریٹ کرائم کی نا تھمنے والی وارداتیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ “چل اڑ جا پنچھی کہیں اور چلیں” یعنی کے تاجروں کی اکثریت سازگارماحول نا ہونے کے سبب دوسرے شہروں یا صوبوں میں اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہیں تاکہ جان و مال کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ظاہر ہے اس سے فرق صرف اور صرف کراچی کی مقامی آبادی کو پڑے گا کیونکہ بے روزگاری کی شرح خطرناک سے خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ متوسط طبقے کی قوت خرید اورتقریبآ ختم ہوچکی ہے سفید پوش طبقہ بھِی کچھ عرصے قبل سے غربت کی لیکر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگیا مگر حکمران وقت سب اچھا ہے کا ڈھول پیٹے جا رہے ہیں اور اگلا معرکہ بھی گذشتہ الیکشن کی طرح جیت کرکامیابی کا جھنڈا گاڑھ لیں گے جبکہ زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا معاشی نظام تتربتر ہونے کے ساتھ ساتھ عدم استحکام کی صورتحال سے بھِی دوچار ہے جن کا بروقت تدارک نا کیا گیا تو ایک ناسور بن کر سرائیت کر جائے گا۔ شہرقائد کی مارکیٹوں میں آگ لگنے کی وجوہات کی کمیٹی بنائی جائے اور اسے عام عوام تک بھی رسائی دی جائے تاکہ اصل حقائق سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ کیونکہ عوام میں اکثریت کا موقف یہ ہے کہ کراچی کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لئے مارکیٹوں میں آگ لگائی جا رہی تاکہ ملک میں معیشت کا پہیہ چلانے والے کراچی کو کمزور کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کے جاسکیں۔