مجھ سا بیکار شخص کراچی جاکر بکار ہوجاتا ہے اور اس کے قصوروار وہ دوست ہیں جو اپنی محبت کے جال میں کچھ ایسا پھنسا لیتے ہیں کہ باوجود ہاتھ پیر مارنے کے میں اس شکنجے سے نکل نہیں پاتا۔ عشق اور مشق کی طرح میری کراچی آمد بھی چھپ نہیں پاتی۔ اس بار تو میں نے ہی کلہاڑی اپنے پاؤں پر ماری تھی۔ دبئی سے کراچی کے سفرمیں سینیٹر فیصل جاوید، اداکارہ ماہرہ خان، گلوکار بلال مقصود اور رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کو ہم رکاب پاکر دوستوں میں شیخی بگھارنے کے لیے اپنے ساتھ ان کی تصویریں فیس بک پر لگادیں۔ اور یہ سب نہ بھی کروں تو فیس بک پہلے ہی اطلاع دے دیتا ہے کہ بچ کر رہنا پٹھان کراچی آیا ہوا ہے۔
کئی سالوں سے کراچی میں قیام ایک یا دو ہفتے سے زیادہ نہیں رہا۔ پچھلی بار یعنی جون میں طویل قیام کا ارادہ تھا لیکن طبیعت کچھ ایسی بری طرح بگڑی اور گرمی کچھ ایسی قیامت خیز تھی کہ ہمت ہار بیٹھا اور ایک ہی ہفتے بعد بھاگ نکلا۔ اس بار ایک دو ہفتے نہیں ، پورے پچیس دن قیام رہا۔ وجہ اس کی سب سے بڑی یہ تھی کہ میری بہن اور بہنوئی ہندوستان سے آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذارنا چاہتا تھا۔ ماشاء اللہ ہمارا خاندان اور اور رشتے دار بھی شہر بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ باجی اور آزاد بھائی ( بہتی ہے گنگا جہاں فیم) جہاں بھی بلائے جاتے میں بھی بطور شامل باجہ ہم رکاب ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس وزن سے لڑتا آر ہا تھا وہ یہاں آکر بے لگام ہوگیا۔ رشتہ داروں، بچپن کے دوستوں اور سب سے بڑھ کر فیس بک کے دوستوں نے پل بھر چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ ہمارے ہاں محبت کا اظہار کھلا پلا کر کیا جاتا ہے اور مجھ جیسے خوش نصیب جن کے اتنے دوست اور اتنے چاہنے والے ہوں انہیں وزن، کلسٹرول اور پرہیز وغیرہ سے بے نیاز ہوجانا چاہئیے اور واقعی کچھ دن بے نیاز ہوجانا پڑا۔
کراچی آمد کے تیسرے دن اپنی تیسری ادبی تخلیق کی آمد کی اطلاع ملی یعنی پبلشر صاحب نے “ سب جانے پہچانے ہیں “ کی تکمیل کی اطلاع دی لیکن جب کتاب ہاتھ میں آئی تو پتہ چلا کہ کتاب کے ساتھ “ سیزیرین سیکشن” والا معاملہ ہوگیا ہے۔ اس قصے کو جانے دیں کہ کراچی میں بہت کچھ اچھا ہی ہوا۔
۱۶ مارچ کو کراچی میں رہنے کی لازمی مصروفیت یعنی اتوار بازار کا دورہ تھا اور اللہ جامی بھائی کو سلامت رکھے کہ اتوار کی صبح ان کے بغیر گذار انا یوں لگتا ہے کہ کوئی گناہ کررہا ہوں۔ اتوار جامی بھائی کے بغیر اتوار ہی نہیں رہتی اور یہ سلسلہ صرف کتابوں تک محدود نہیں رہتا۔ جو کوئی جامی بھائی کی محبت کے حصار میں آگیا پھر اپنی مرضی سے باہر نہیں آسکتا۔ بے غرض، بےریا اور بے لوث دوستی کو اگر انسانی شکل دینی ہو تو سید معراج جامی کو دیکھ لیں اور یہ ہم نہیں کہتے، زمانہ کہتا ہے۔ جس طرح میں خود کو ان کی زلفوں کا اسیر سمجھتا ہوں اسی طرح تم ہوئے کہ میر ہوئے سب ہی جامی بھائی کو اپنے قریب ترین محسوس کرتے ہیں۔
اور جس طرح مصیبت اکیلے نہیں آتی اسی طرح جامی بھائی کی محبت بھی تنہا نہیں آتی۔ اتوار کی صبح گلشن اقبال کے قرب و جوار میں جو بھی ادب دوست جاگ رہا ہوتا ہے وہ جامی بھائی کی کار میں موجود ہوتا ہے۔ اس بار ان کے ا ٹوٹ انگ یعنی قیصر کریم بھائی کسی وجہ سے موجود نہیں تھے لیکن شجاع الدین غوری صاحب موجود تھے۔ مجھے گھر سے اٹھا کر پیرو مرشد مستقیم شاہ کے آستانے کی طرف روانگی ہوئی جہاں سے یہ قافلہ سوئے ریگل چوک روانہ ہوا۔ کتابوں کی خریداری تو ایک بہانہ ہے یہاں کئی دوستوں سے ملاقات ہوجاتی ہے اور یہاں سرراہ چلتے چلتے مربّی و مکرمی عباس رضوی صاحب سے ملاقات ہوگئی جو کہ مختصر رہی مگر زندگی کے چند یادگار لمحات کا حصہ رہے گی۔
صرف کتابوں سے تو پیٹ نہیں بھرتا چنانچہ واپسی پر گلشن میں ہی ایک جگہ رک کر حلوہ پوری اور چائے کا ناشتہ کیا۔ میں نے بوجوہ حلوہ پوری سے پرہیز کیا لیکن دوایک نوالے چکھے تو اپنی استقامت کو داد دینے پر مجبور ہوں کہ کوئی رب کی اس نعمت سے کیسے پرہیز کرسکتا ہے۔
غوری صاحب یہاں ہم سے رخصت ہوئے لیکن جامی بھائی فون پر مستقل مصروف تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ دیر بعد ہم عزیز خان صاحب کے دولت کدے پر موجود تھے جہاں سعود سلیم بھائی پہلے سی پہنچے ہوئے تھے۔ ٹونک اور جے پور کے ان پہنچے ہوئے بزرگوں کی صحبت میں تو وقت کیسے گذرتا ہے احساس ہی نہیں ہوتا۔ خان صاحب نے چار قیمتی کتابوں سے نوازا، چائے کے ساتھ خان صاحب کی پرلطف باتیں اور پھر پیر مستقیم شاہ کی شاعری اتوار کی اس صبح کو یادگار بنا گئیں۔ جامی بھائی نے یہ پیر بڑا اچھا دریافت کیا ہے کہ شاعری واقعی کمال کی تھی اور میں بھی سنجیدگی سے بیعت کرنے کے بارے میں غور کررہا ہوں کہ طریقت نہ سہی شاعری ہی سیکھ لوں گا۔
اگلی منزل جامی صاحب کا نادر روزگار کتب خانہ تھا جہاں نایاب کتابیں تو ہوتی ہی ہیں ، صاحبان علم وادب کا ایک جمگھٹا بھی منتظر ہوتا ہے۔ یہاں اعجاز بابو اور محمد انس جیسے جویان علم سے ملاقات ہوئی۔ ایک صاحب جن کا نام اس وقت ذہن میں نہیں ہے اپنی ایک نئی کتاب کے ساتھ تشریف لائے جس سے ان کے علمی اور ادبی مقام کا اندازہ ہوتا تھا۔
یہاں حاضرین سے بمشکل اجازت چاہی کہ گھر پر بہن ، بہنوئی منتظر تھے۔ اگلے دن یعنی پیر ۱۷ فروری کو نہ جانے کس بات کی چھٹی تھی کہ ہم سب کی لاڈلی راحت عائشہ نے دوپہر کو تمام احباب کو پائے پر مدعو کیا ہوا تھا۔ سلیم فاروقی اور مجھ جیسے پرہیزگاروں کے لیے کڑاہی گوشت کا بھی انتظام تھا اور زبردست تھا۔ راحت اور اور اس سے چھوٹی صدف مہمانوں کی خاطرتواضع میں مصروف تھیں اور ہم یہاں وقار شیرانی، عقیل عباس جعفری، محترمہ حمیرا اطہر، بھائی سعود سلیم، انوار احمد، سلیم فاروقی اور مہ جبین آصف کی پر لطف باتوں کے مزے لے رہے تھے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ لذت کام و دہن کا انتظام خوب تھا یا محفل شہر یاراں۔
اگلا دن چھٹی کا تھا یعنی کوئی ادبی سرگرمی نہیں تھی لیکن کوئی ایسی بے ادبی مصروفیات بھی نہیں تھیں کہ اپنے ہندوستانی مہمانوں کے ساتھ پورا دن گذارا۔ اس سے پہلے محترمہ شبنم امان نے وفاقی اردو یونیورسٹی کی ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دے رکھی تھی اور میں مطمئن تھا کہ یونیورسٹی روڈ پر گھر کے قریب ہی ہے اور اک ذرا گردن جھکائی اور پہنچ جاؤں گا۔ ایک دن پہلے یونہی دعوت نامہ دیکھا تو وہاں لکھا تھا “ مولوی عبدالحق کیمپس” ۔۔کریدا تو پتہ چلا کہ یہ تو قدیم اردو کالج یعنی سول ہسپتال کے قریب والا کیمپس ہے۔ اب وہاں جانے کا طریقہ سوچ ہی رہا تھا کہ جامی بھائی کا فون آگیا کہ وہ نہ صرف مجھے وہاں لے چلیں گے بلکہ ساتھ قیصر کریم اور ایک دو دوستوں کو بھی ساتھ لائیں گے کہ کوئی تو مصرعہ اٹھانے والا اپنا بھی ہو۔ اس سے بڑھی ڈھارس بندھی کہ مجھے پروگرام کے بارے میں پوری طرح علم نہیں تھا کہ وہاں کرنا کیا ہے؟
بدھ یعنی ۱۹ فروری کی صبح جامی بھائی مجھے لینے آگئے۔ دیگر دوست کسی وجہ سے نہ آسکے لیکن ایک جامی بھائی ہی سو لوگوں پر بھاری ہیں چنانچہ بے فکر ہوگیا۔ بندر روڈ یعنی ایم ای جناح روڈ پر کچھ کام چل رہا ہے جس کی وجہ سے سڑک بند تھی اور جامی بھائی سولجر بازار ، گارڈن روڈ اور بوہرہ پیر وغیرہ کے ٹریفک سے لڑتے ہوئے اردو یونیورسٹی عین وقت پر لے آئے اور مجھے شہر ناپرساں کراچی کی زبوں حالی نے “ اللہ کی رحمت کا محمدی ہوٹل” جیسے مضمون کا مواد فراہم کردیا۔ وقت پر “ جلسہ گاہ” پہنچنے کا وہی صلہ ملا جو وقت کی پابندی کرنے والوں کو ملتا ہے یعنی ہمارا استقبال ان الیکٹریشنز نے کیا جو مائیک وغیرہ درست کررہے تھے۔ ایک آدھ استاد بھی وہاں موجود تھیں۔ ہم نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بابائے اردو کے مزار پر حاضری دی۔ جامی بھائی نے اردو کالج کے وہ حصے دکھائے جہاں بابائے اردو کے علاوہ میجر آفتاب حسن، جمیل جالبی اور جمیل الدین عالی جیسے اہل علم اردو کی ترویج و ترقی کے لیے سرگرم رہتے تھے۔
خیر جیسے تیسے شرکاء اور حاضرین سے کچھ دیر بعد ہال بھر گیا۔ اور جب کاروائی شروع ہوئی تو میرے سامنے سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ “ مجھے کیوں بلایا؟”۔ یہ پروگرام بیرون ملک سے تشریف لانے والی ان شاعرات کے اعزاز میں تھا جو مختلف ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں اور ان ممالک کی ادبی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اپنا کلام بھی پیش کرنے والی تھیں۔ ان میں محترمہ رضیہ سبحان، غزل انصاری اور تبسم انور نے نہ صرف ان سرگرمیوں کی تفصیل سے آگاہ کیا اور اپنا خوبصورت اور معنی آفرین کلام بھی پیش کیا۔
اب میری باری آئی تو سمجھ نہیں آیا کیا کروں ۔میں ٹھہرا مزدور پیشہ شخص جو ادب اور شاعروں اور ادیبوں کو دور سے دیکھا کرتا ہے۔ کسی ادبی تنظیم یا سرگرمی کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ جامی بھائی نے کہا تھا کہ تم اپنی کتابوں سے اقتباسات پڑھ دینا۔ میں ہوں ناں تالی بجانے کے لیے۔۔میں اپنی نوزائیدہ کتاب کے علاوہ “ میرے شہر والے” اور “ بہتی ہے گنگا جہاں” کے بھی بہت سے نشان زدہ صفحے لے گیا تھا۔ اپنے آپ کو معتبر بنانے کے لیے ایک مانگے کی واسکٹ بھی پہن کر گیا تھا کہ باتوں سے نہ سہی شکل سے تو ادیب اور پڑھا لکھا لگوں ۔
ایک دو یہاں وہاں کی باتیں کیں اور دو ایک اقتباسات ہی پڑھے تھے کہ پرچیاں آ گئیں کہ آج کے لیے اتنا ہی بہت ہے اور یہ کہ اب سب کو بھوک لگ رہی ہے۔ جلدی سے اپنا خطاب سمیٹا اور کھانے کے کمرے کے طرف روانہ ہوئے جہاں کھانے سے زیادہ وقت تصاویر میں لگ گیا اور جب کئی طالبات نے آکر فرمائش کی کہ “ سر ہمارے ساتھ ایک تصویر بنوالیں” تو مانگے کی واسکٹ کی قدروقیمت کا اندازہ ہوا۔
جامی صاحب مغل بچوں کی طرح جس سے محبت کرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں۔ گلشن اقبال سے ڈھو کر مجھے اردو یونیورسٹی لے آنے پر ہی بس نہیں کیا۔ یہاں سے مجھے اردو بازار لے گئے اور ویلکم بک پورٹ اور فضلی سنز پر “ بہتی ہے گنگا جہاں” اور “ سب جانے پہچانے ہیں “ کی کاپیاں برائے فروخت رکھوائیں۔ یہاں ایک صاحب نے دونوں کتابوں کی ایک ایک کاپی خریدی تو بارے اطمینان ہوا کہ قسم کھانے کے لیے ہی سہی کوئی تو کاپی بکی۔ پتہ چلا کہ یہ سلیم فاروقی صاحب کے برادر بزرگ ہیں اور کسی اور ارادے سے یہ کتابیں لے گئے ہیں۔ اس کی تفصیل ذرا آگے آئے گی۔
ہم نے اردو یونیورسٹی میں صرف چائے پی تھی۔اب بھوک لگ رہی تھی۔ گلشن اقبال کے ایک ریسٹورنٹ میں دوپہر کا کھانا کھا کر جامی بھائی سے اجازت چاہی ۔ جامی بھائی نے مجھے میرے گھر چھوڑا ۔انہیں بھی شام کو کسی شادی میں جانا تھا۔ گھر پہنچ کر اب میں دوسرے معرکے کی تیاری میں جت گیا جو گلشن معمار میں بپا ہونے والا تھا۔
اور یہ معرکہ تھا گلشن معمار میں واقع “ شاہ محی الحق فاروقی اکیڈیمی” کے زیراہتمام ایک یوٹیوب چینل پر انٹرویو کا۔ میرا خیال تھا کہ گلشن معمار بھی گلشن اقبال کے آس پاس ہی کہیں ہوگا اس لیے آزاد بھائی کو ساتھ لیا اور “ کریم” کے ذریعے گلشن معمار روانہ ہوا۔ گلشن معمار اللہ میاں کے پچھواڑے کہیں واقع ہے۔ شبنم امان نے اردو یونیورسٹی کی کئی تصاویر لی تھیں اور وہ یقیناً فیس بک پر ضرور نظر آتیں اور پہچاننے والی پہچان جاتے کہ یہ وہی واسکٹ ہے جو صبح پہنی تھی چنانچہ گھر سے ایک عدد کوٹ پہن کر انٹرویو کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اکیڈیمی کی شاندار لائبریری میں انٹرویو کا انتظام تھا جہاں وہی صاحب نظر آئے جو کچھ دیر پہلے فضلی اینڈ سنز پر نظر آئے تھے۔ کچھ دیر بعد سلیم فاروقی بھی آگئے۔ یہ اکیڈیمی ان کے بھائی تسنیم فاروقی کے گھر واقع ہے۔ انٹرویو شروع ہوا تو وہ دونوں کتابیں تپائی پر دھری نظر آئیں ۔ شور سے بچنے کے لیے پنکھا بند کردیا گیا تھا۔ کوٹ کے اندر بغلوں سے بہتے پسینے اور چہرے پر مسکراہٹ سجا کر انٹرویو دیتے ہوئے احساس ہوا کہ کراچی اور لاہور کے اسٹوڈیوز میں مری کی تصاویر والے سیٹ کے سامنے موٹے مو ٹے کپڑے پہنے ایک دوسرے کے آگے پیچھے دوڑتے ہیرو اور ہیروئن کو “ نگار ایوارڈ” اور دوسرے ایوارڈ کیوں ملتے ہیں۔
خیر یہ گرمی تسنیم بھائی کی ٹھنڈی ٹھار ایرکنڈیشنڈ گاڑی میں واپسی اور سلیم بھائی کی فرحت بخش باتوں میں دور ہوگئی۔اگلا دن پھر چھٹی کا دن تھا یعنی ادب دوستوں سے دوری کا۔ گھریلو دعوتیں البتہ جاری رہتی تھیں۔
اب تک ایک اور پرخلوص اور مہربان دوست یعنی سید خورشید عالم صاحب سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ عالم صاحب کی شریک حیات انہیں حال ہی میں داغ مفارقت دے گئی تھیں اور یہ صدمہ بھلانا ظاہر ہے اتنا آسان نہیں۔ عالم صاحب سے فون پر تو بات ہوگئی تھی لیکن میرا ارادہ اپنے بھائی منیر کے ساتھ عالم صاحب کے گھر جانے کا تھا کہ جمعہ کے دن عالم صاحب کا ہی فون آگیا اور وہ اصرار کرنے لگے کہ دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھاؤں۔ اتنی محبت اور خلوص سے لبریز دعوت بھلا کیسے قبول نہ کی جاتی۔ عالم صاحب نے “ عثمانیہ ریسٹورنٹ” میں نہ صرف مجھے بلکہ جامی صاحب، غوری صاحب اور انور علی صاحب بلکہ میرے استاد محترم جناب معین کمالی صاحب کو بھی مدعو کیا تھا۔ یہ تمام حضرات میرے لیے بے حد محترم ہیں لیکن یہ ایک بے تکلف اور دلچسپ محفل تھی جہاں کام و دہن کے ساتھ عالم صاحب ، جامی بھائی اور معین کمالی صاحب کی مزیدار گفتگو نے اسے ایک نہ بھولنے والی مجلس بنادیا تھا۔
بائیس تاریخ ایک زبردست اور یادگار دن تھا۔ آج عقیل عباس جعفری صاحب کی صاحبزادی “ دوستی” کی رخصتی کی تقریب تھی۔ عقیل صاحب کے ہاں علم وادب، سیاست اور شہر کے بڑے نام مدعو تھے۔ خواتین میں مجھے سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نظر آئیں۔ لیکن یہ شکیل عادل زادہ تھے جنہیں ادب دوستوں نے گھیرا ہوا تھا۔ یہیں ایک محترم دوست احمد اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کرن صدیقی ، سلیم فاروقی اور میں تو منیر پٹھان کی گاڑی میں ساتھ ہی آئے تھے۔ یہاں شاہانہ اور انکے شریک حیات جاوید صاحب، انوار احمد اور نزہت بھابی، ناہید سلطان مرزا صاحبہ، ہردلعزیز گل بانو، عارف سومرو، عروس البلاد کے روح و رواں اقبال اے رحمان جن کی کتاب “اس دشت میں اک شہر تھا” عنقریب دھوم مچانے والی ہے، ایک بہت پیارے دوست جاوید احمد جاگ، سخن پارے کے ہمارے پرانے ساتھی طارق رئیس فروغ اور میرے بہت ہی پیارے ارشد اور زومی اور دوسرے کئی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔
یہ سب جاری تھا ساتھ ہی گھریلو اور خاندانی دعوتیں اور ملاقاتیں، شادیاں اور ملنا ملانا بھی چل رہا تھا۔ اس بیچ ایک “ خفیہ” دعوت ایک ایسی ہستی کے ہاں تھی جو ہم سب سے ناراض ہے اور سب سے زیادہ مجھ سے ناراض ہے لیکن ناراضگی اپنی جگہ ، کھانا پینا اپنی جگہ۔ دعوتیں میں نہیں چھوڑتا، نہ دوستوں کو چھوڑتا ہوں چاہے وہ کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہوں۔
دعوتیں کھا کھا کر اور تقریبات میں شرکت کر کرکے میں اپنے آپ کو کچھ کچھ وزیراعظم عمران خان سمجھنے لگا تھا اور چاہتا تھا کہ آخری دو تین دن گھر پر رہوں۔ اسی سوچ میں غلطاں ایک صبح ساڑھے تین چار بجے کے قریب وقت دیکھنے کے لیے فون اٹھایا تو ایک میسیج نظر آیا” آپ کراچی میں کب تک ہیں “۔ یہ زومی ارشد کا میسیج تھا۔ زومی وہ ہستی ہے جس کا میسیج میں کبھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اسے بتایا کہ دو دن اور ہوں۔ وہ بضد ہوئی کہ ایک دن اسے دوں۔ فیس بک میرا خاندان ہے لیکن زومی اور ارشد سے میرا تعلق کچھ اور ہی ہے۔ میں زومی کی بات ٹال نہیں سکتا تھا۔ ہفتے کی شام زومی کے ہاں انوار بھائی، نزہت بھابی اور نجمہ نسیم بھی تھے۔ نجمہ جس محفل میں آجائیں تو پھر گرمئی گفتار دیکھنا۔ بس وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ نجمہ بہت اچھا بولتی ہیں۔ سنتی بھی اچھا ہی ہونگی۔
زومی جو کام کرتی ہے دل سے کرتی ہے۔ مصوری، سنگتراشی، گلوکاری تو کمال کی کرتی ہے، کھانا پکانے میں بھی کسی طرح کم نہیں لیکن اس کی باتیں کھانے سے زیادہ لذیذ اور دل پذیر ہوتی ہیں کہ وہ ہے ہی ایسی دلنواز و دلدار۔ ایسی مزیدار محفل جمی کہ مزہ ہی آگیا۔انوار بھائی اور ارشد دونوں سابق ناظم آبادئیے ہیں۔ اب جو ڈاکخانے ملنے شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ جس گھر میں بیٹھے ہیں وہ تو انوار بھائی کے بہت قریبی دوست کی بہن کا ہے۔ رات گئے یہ پرلطف محفل اختتام کو پہنچی۔
کل دوبئی واپس آیا ہوں لیکن اپنا دل کراچی میں چھوڑ آیا ہوں۔ کراچی دوستوں کا شہر، محبت کرنے والوں کا شہر۔ ہم جب کراچی میں ہوتے ہیں تو کراچی کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے لیکن یقین جانئیے ایسا دل دار شہر دنیا میں کہیں نہیں۔ دوستوں کی محبتوں کی خوشبوئیں ساتھ لایا ہوں۔ خوش رہو آباد رہو دوستو۔۔یونہی محبتیں لٹاتے رہو اور محبتیں لوٹتے رہو۔