اس بار کراچی لٹریچر فیسٹول(26 تا 28 مارچ) ڈیجیٹل تھا ،تاہم کچھ ادبیوں کو دعوت دی گئی کہ وہ بیچ لگژری ہوٹل میں قیام کریں اور لائیوسیشن کریں۔ باقی سب سیشن پہلے سے ریکارڈ کر لیے گئے تھے مگر انھیں سوشل میڈیا پر لائیو کے طور پر چلایا گیا۔ بیچ لگژر ی ہوٹل میں ٹھہرنا ایک زبردست تجربہ ہوتا ہے۔1948 میں قائم ہونے والا یہ ہوٹل سحر انگیز فضا میں ہے۔کمرے کی کھڑکی سے سمندر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔پانی پر تیرتے تختے پر ناشتے اورکھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔اس تختے کےچاروں طرف مٹیالے سبز رنگ کا گاڑھا سا پانی ہے۔ مشرق کی طرف مینگروور کے درخت ہیں۔ پانی میں درختوں کو دیکھنا اور سمندری بگلوں کو ادھر ادھر پروا ز کرتے دیکھنا ،جنت کا کوئی منظر محسوس ہوتا ہے۔ہفتے کی رات ، مشاعرہ ختم ہونے کے بعدمیںنے پیرزادہ سلمان کے ساتھ مل کر وہیں کھانا کھایا۔ نیم تاریکی میں سمندر اور گھنے درختوں کا سلسلہ خوابناک منظر تھا۔ ہم نے وہیں انتظار حسین ،شمیم حنفی اور مسعود اشعر کو یا دکیا۔
پہلے ہی دن شمس الرحمٰن فاروقی پر سیشن تھا۔ کاشف رضا ماڈریٹر تھے ، جب کہ مہر افشاں اور حمید شاہد کے ساتھ میں پینل میں شامل تھا۔ اس بارھویں کراچی لٹریچر فیسٹول کے پہلے دن کے انتظامات اچھے نہیں تھے ۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ یہ سیشن دیر سے شروع ہوا، مگر لائیو ہونے میں کافی وقت لگا اور زحمت الگ۔ مہر افشاں تکینیکی سبب سے گفتگو میں حصہ نہ لے سکیں۔
پہلے اور دوسرے دن افتخار عارف، کشور ناہید،انور شعور، انور سن رائے، عذرا عباس ،انعام ندیم ، حارث خلیق، ناصرہ زبیری ، عنبرین حسیب عنبر اور کچھ دوسرے لوگوں سے ملاقات رہی۔پیرزادہ سلمان سے طویل نشستیں رہیں۔آصف فرخی کو سب نے یاد کیا۔"دوزخ نامہ " اور "امرتسر آگیا ہے" جیسی اہم کتابوں کے مترجم اور شاعرانعام ندیم نے "جدیدیت اور نوآبادیات " پر دستخط کروائے تو مجھے اپنی ہی کتاب کو پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا۔ برادرم انور سن رائے کو اس امر کاپتہ چلا تو وہ فوراً دو نسخے خرید لائے ۔ ایک میرے لیے تھا۔ حارث خلیق نے بھی کتاب خریدی اور مصنف سے دستخط کروائے۔میں سب کا ممنون ہوں۔
اگلے دن کا پہلا حصہ سید کاشف رضا کے ساتھ گزرا۔میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے سال کراچی مسلسل آرہا ہوں۔ کبھی تو سال میں تین چار باربھی آنا ہوا ہے ۔کراچی کے سمندر کا کچھ حصہ تو دن ، شام اور رات کے وقت کئی بار دیکھا ہے مگر کراچی کا قلب یعنی اس کی وہ دنیا ،جواس کے قدیم رازوں کی امین ہے، نہیں دیکھی۔پرانے و اصلی شہر کو نہ دیکھ سکنے کاایک سبب ، اس شہر پر کئی دہائیوں سے چھایا آسیب تھا ۔اب وہ قصہ پارینہ ہے۔شہر وں کے جدید حصے ، ایک پرانی حکایت کے اس اونٹ کی مانند ہیں جو جھونپڑی میں سر چھپانے کی درخواست کرتے ہیں مگر رفتہ رفتہ پوری جھونپڑ ی پر قبضہ جمالیتے ہیں۔ ابتدا میں چند بڑی عمارتیں ،ان کی چکا چوند، پھر ان کا کبھی نہ رکنے والا سلسلہ۔ پرانے شہروں کی اصل پر یہ سب قابض ہوجاتے ہیں۔ خیر ،کاشف رضا مجھے اپنی گاڑی میں کراچی کے قدیمی حصوں میں لے گئے۔ وہ مجھے کراچی کی شاہراؤں، بڑے بڑے دفاتر،عمارتوں ، بازاروں ، روایتی کھانوں ، کتابوں کی دکانوں سے متعارف کرواتے رہے۔ کاشف گزشتہ ستائیس سالوں سے اس شہر میں ہیںاور اس کے چپے چپے سے واقف ہی نہیں، دلی وابستگی بھی رکھتے ہیں۔ چھوٹے شہروں ،قصبوں سے آنے والے اکثر لوگ بڑے شہروں میں بیگانگی محسوس کرتے ہیں۔ کاشف نہیں۔
دو مقامات کی یا د محو نہیں ہوگی۔ پائنیر بک ہاؤس۔ایم اے جناح روڈ پر واقع ، قانون کی کتب کی یہ دکان 1945 میں قائم ہوئی تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کے دروازے پر قانون کے طلبا کی طویل قطاریں ہوتی تھیں ۔پھر زمانہ بدلا۔ دکان کے مالکوں کی تیسری نسل نے دیکھا کہ گاہکوں کے لیے ان کی چشم انتظار پتھرانے لگی ہے اور دکان میں گرد وغبار اور تاریکی غالب آنے لگے ہیں۔ ایسے میں ایک خاتون آگے بڑھیں۔ منیزہ نقوی۔ انھوں نے اس کی بحالی کی سعی۔A Guest in the House ان کی اس سعی کا قصہ ہے۔ کاشف نے مجھے یہ کتاب عنایت کی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی کاشف نے مکمل کرلیا ہے۔
دوسری جگہ مری ماتا کا مندر ہے۔یہ رتن تلاؤ کے علاقے میں ہے۔اس علاقے میںاکبر مارکیٹ کے نام سے موٹر سائیکلوں کی مارکیٹ ہے۔اسی مارکیٹ کے بیچ ،ایک مقام پر سبز رنگ کا ایک آہنی گیٹ ہےجس کے آگے بانسوں پر مختلف رنگوں کے علم ہیں۔ گیٹ کے اوپر درمیان میں سرخ رنگ میں "مائی جنت کا تعزیہ " کی عبارت ہے۔ اس کے اوپر دائیں اور بائیں جانب بالترتیب یااللہ اور یامحمدﷺ لکھے ہیں۔ یہ گیٹ ،اندر جس "دنیا " میں کھلتا ہے، اس کے بارے میں زیادہ نہیں بتاتا۔ اگر کاشف مجھے نہ بتاتے تو مجھے یہ خیال تک نہ آتا کہ یہ مری ماتا کا مندر ہے۔جنوبی ہند میں مری ماتا "بارش کی ماں دیوی " کہی جاتی ہے۔تاہم شمالی ہند میں اسے شیتلا دیوی (جو چیچک کی دیوی ہے اورجس کا کافی ذکر "آگ کا دریا " میں آتا ہے)بھی کہاجاتا ہے۔ وہاں موجود مائی ایشوری نے بھی یہی بات کہی۔ اب چیچک تو باقی نہیں مگر بچوں کی دوسری چھوٹی موٹی بیماریوں کے لیے خواتین اس مندر میں آتی ہیں۔اس کے اندر عجیب وغریب دنیا ہے۔ایک طرف حضرت امام حسین ؑ کا تعزیہ رکھا ہے جو کافی پرانا ہے ،دوسری طرف ایک بینر پرغوث الاعظم عبدالقادر جیلانی ؒ کا نام درج ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا مندر، جس کا ایک حصہ مقفل تھا، ہندو مذہب اور مسلمانوں کے دو مسالک میں ثقافتی ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔یہاں ہر سال نویں دسویں محرم کو مائی جنت کے نام کا تعزیہ نکلتا ہے اور ربیع الاوّل میں میلا د کا اہتمام ہوتا ہے اور مندر میں پوجا بھی باقاعدگی سے ہوتی ہے۔مائی ایشوری جو بھگوان اور اللہ کا نام ساتھ ساتھ لیتی ہے ، مندر کی کثیر الثقافتی دنیا کی خو دکو محافظ سمجھتی ہے۔اس کا میاں گووند رکشہ چلا کر روزی کماتا ہے۔ کاشف کے ناول کا کچھوا، اسی مندرکے کنویں سے نکلا تھا اور مندر ہی میں موجود شولنگ کے پاس پہنچااور اس پرنام کیا تھا۔ میں نے وہاں اسے کافی ڈھونڈا۔ناول کا کچھوا، کنویں یا مندر میں تھوڑی ملتا ہے۔