یہ عکس ہے عقیل عباس جعفری کے مرتب کردہ پاکستان کرونیکل کے ایک صفحے کا۔
کیا آپ میں سے کسی کو 4 مارچ کی خبر کا پس منظر معلوم ہے؟؟؟
یہ عمر کا وہ حصہ تھا جب ارد گرد ہونے والے واقعات ایک تصویر کی مانند ذہن پر کندہ ہوجاتے ہیں۔ میری عمر 6 برس کی تھی اور اس وقت میں اشاعت القران اسکول ناظم اباد میں پہلی جماعت کا طالب علم تھا۔ یہ اسکول اورنگ آباد کوارٹرز، ناظم آباد میں اورنگی نالے کے بالکل کنارے اب بھی موجود ہے۔
ہجرت کر کے آنے والوں کے لئے اورنگ آباد کوارٹرز پچاس کی دہائی کے شروع میں بنائے گئے تھے۔ ایک کمرہ، ایک دالان جو کچن بھی تھا، مختصر سا صحن، انتہائی مختصر غسل خانہ اور ٹوائلٹ۔ یہ کل کائنات بمشکل 35 یا 40 مربع گز پر مشتمل تھی۔ بجلی یا پانی جیسی سہولت کا نام دور دور تک موجود نہ تھا۔ سوئی گیس کا تو نام بھی نہ سنا تھا۔ ہر بلاک کے آخری گھر کے غسل خانے اور ٹوئلٹ کے اوپر پانی کے لئیے ایک بڑی ٹنکی بنی ہوئی تھی جس سے نکلنے والا پائپ باقی گھروں کے دروازوں کے اوہر سے ہوتا ہواپہلے گھر تک جاتا تھا۔ ہر گھر کے غسل خانے میں نلکہ بھی تھا ۔ بس کمی تھی تو پانی کی جسے پورا کرنے کے لئے گلی میں لگے نلکے پر سارا دن اور رات بالٹیوں اور کنستروں کی قطار رہتی تھی اگر پانی آجاتا تو سب بڑے اور بچے اپنے اپنے گھر کا پانی بھرنے میں مصروف ہوجاتے ورنہ بہشتی سے ایک دو مشک پانی خریدا جاتا تھا۔پانی کی ٹنکی سے نکل کر ہر گھر کے دروازے کے اوپر سے گزرنے والے مضبوط پائپ رسی کا جھولا ڈالنے کے کام آتا تھا۔
ہم پانچ بہن بھائی، ہمارے والدین اور رشتے کے ایک چچا اسی گھر میں رہتے تھے۔ سارے ہمسائے رشتہ داروں کی طرح تھےکسی کے گھر آٹا ادھار جارہا ہے تو کہیں سے شکر آرہی ہے۔ سب بچے شام کو گلیوں میں کم خرچ کھیل کھیلنے میں مصروف رہتے اور مغرب کے بعد کوئی باہر نہیں نکلتا تھا۔ وجہ سیکیورٹی نہیں تہذیب تھی۔ عشاء کے بعد سب سوجاتے تھے۔ کسی کسی گھر میں بیٹری والا ریڈیو تھا اس کا تناسب بھی پچاس گھروں میں ایک ہوگا۔
مارچ 1958 کا پہلا ہفتہ تھا جب ہم اسکول سے نکلے۔ ہر شخص گھبرایا ہوا اپنے اپنے گھر کی طرف بھاگ رہا تھا۔ہمیں بھی کسی نے چیخ کر کہا جلدی سے گھر جاؤ۔۔ اسکول سے گھر کا پندرہ منٹ کا راستہ دوڑ کر طے کیا۔ بس یہ سنائی دے رہا تھا پٹھانوں نے حملہ کردیا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ پٹھان کیوں حملہ کردیں گے۔ وہ تو ہماری گلی میں ٹھیلے پر ٹب میں بھری راکھ میں شدید گرمی میں بھی شکر قندی پیچنے آتے ہیں، یا دو پہیوں پر چلتا ہوا ٹینک لے کر مٹی کا تیل یا سردیوں کی رات میں گرم گرم ریت پر بھنتی ہوئی مونگ پھلی بیچتے ہیں۔ اور ہاں گلی کے کونے پر جو موچی ہماری ٹوٹی چپلیں اور جوتے جوڑتا ہے، وہ بھی تو پٹھان ہے۔
ٹیلی ویژن کی آمدمیں ابھی بہت دیر تھی۔اخبار کسی کسی گھر میں آتا تھا۔ ریڈیو بھی خال خال تھے۔ مسجدوں میں بجلی نہ ہونے کے سبب لاؤڈاسپیکر بھی نہ تھے۔ شام کو ایک گھوڑا گاڑی ( بگھی) میں نصب بیٹری پہ چلنے والےلاؤڈاسپیکر پر گلی گلی اعلان ہوا کہ کرفیو آرڈر ہوگیا ہے۔ گھر سے باہر نظر آنے والے کسی بھی شخص کو یا تو گولی مار دی جائے گی یا گرفتار کرلیا جائے گا۔ بڑوں کو باتیں کرتے سنا کہ علاقے کے کسی رہائشی کا کسی بات پر ایک پٹھان سے جھگڑا ہوگیا۔ وہ اس وقت تو وہاں سے چلا گیا لیکن بعد میں اپنے درجنوں ساتھیوں کے ہمراہ کلہاڑوں، کدالوں، ڈنڈوں، چھریوں اور اسلحے کے ساتھ علاقے کے نہتے لوگوں پر باقاعدہ لشکر کشی کردی۔ گھنٹوں یہ فساد جاری رہا جب کہیں پولیس نے مداخلت کرکے صورتحال اپنے قابو میں کی۔ ہلاکتوں اور ذخمیوں کی تعداد اخباری خبر میں درج ہے۔
یہ کرفیو کئی روز جاری رہا اور روزانہ نئے حملوں کی اطلاعات آتیں۔ بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے اپنے دفاع کے لئے چارپائیوں کے ڈنڈے اور گرم پانی میں پسی ہوئی مرچیں گھول کر رکھی تھیں۔ خوف و ہراس کی یہ فضا کئی روز قائم رہی۔ جس روز یہ واقعہ ہوا اس کے اگلے ہی روز شام کو دور کہیں پورا آسمان آگ کے شعلوں سے سرخ ہوگیا اور گہرا دھواں کئی گھنٹوں تک اٹھتا نظر آیا۔ لوگوں کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ آگ کے بارے میں کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں لگی ہے۔ بس قیاس آرائیاں تھیں۔ اگلی صبح پتہ چلا کہ بوہری بازار جل کر راکھ ہوگیا اور درجنوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس آتشزنی کا فسادات سے کوئی تعلق تھا اس کا تعین نہ ہوسکا۔
علاقے کے لوگ اس واقعے کو عرصے تک ' پٹھانوں کی لڑائی " کے نام سے یاد کرتے رہے۔ یہ میری زندگی میں کراچی میں لگنے والا پہلا کرفیو تھا۔