:::" کراچی کی مرحوم ٹرام کی مختصر تاریخ ": { چند یادیں، حقائق اور دلچسپ باتیں} :::
میں بہت زیادہ ناسٹلجیا میں رہنے والا آدمی نہیں ہوں۔ مگر میں اپنی چند بچپن کی یادوں کو بھلا نہیں پاتا ۔ خاص طور پر میرا کراچی کی مرحوم ٹرام سے جو ایک تعلق تھا میں آج بھی بھول نہں پایا۔ ٹرام جو ہمارے سفر کا سب سے بڑا زریعہ تھی۔ اس کا رومانس طلسم ہوشربا کے قصّے سے کسی طور پر کم نہ تھا۔ جب ہم نے کراچی میں اسکول جانا شروع کیا تو ہم ٹرام کے سفر کے لیے محمد علی ٹرام وے کے مرکذی دفتر جو پلازا سینما کے قریب بندر روڈ { اب ایم ای جناح روڈ} پرایک طویل قامت لال رنگ کی عمارت میں ہوا کرتا تھا۔ ہم وہاں سے ماہنامہ سفری " پاس " بنوانے جایا کرتے تھے۔ طالب علوں کے اس سفری پاس/ کارڈ کا رنگ گلابی ہوتا تھا۔ اس زمانے میں طالب علوں کے لیے شاید ایک مہینے کے لیے یہ سفری پاس ایک یا سوا روپیہ کا بن جاتا تھا اور ہم بچے اکثر جب بھی وقت ملتا اسکول کے بعد اس پاس کو دکھا پر پورے شہر میں گھوما پھرتے تھے۔ اس زمانے میں کراچی کی ٹرام سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ہوا کرتی تھی۔ خاض طور پر پاکستان کے شمالی علاقوں کے لوگوں کے علاوہ ہندوستان سے بالخصوص یوپی، بہار، راجھستان سے آنے والے بھارتی باشندے اپنے میزبانون اور رشتے دارون سے عموما دو ہی فرماشیں کیا کرتے تھے کہ انھوں ٹرام کی سیر کروادئی جائے اور وہ سمندر دیکھنا چاہتے ہیں۔
کراچی ٹراموے نقل و حمل کی تاریخ 90 سال پرانی ھے (1885-1975) میونسپل سیکریٹری اور انجینئر، جیمزاسپین نے سب سے پہلے کراچی ٹراموےکا خواب دیکھا۔. 1881 میں، لندن کے مکین مسٹر ایڈورڈ کراچی کی ٹراموے کی نقل و حمل کے نیٹ ورک کی تعمیر کے لئے ٹینڈر طلب کئے گئے. یہ ٹینڈو 1883 تک لیے گئے تمام دفتری کاروائی پوری کرنے کے بعد ٹرام کے لئے بھاپ کی طاقت سے چلنے والے لوکوموٹیوو استعمال کرنے کی اجازت طلب کی گئی اور کراچی میں ٹرام وے کی تعمیر کا کام اکتوبر 1884 میں شروع ھوا۔ کراچی میں ٹراموے کمپنی کے کاروبار کا آغاز کا سہرا کراچی کے میونسپل سیکریٹری اور معروف انجینئر اور آرکیٹکٹ مسٹر جیمز اسٹریچن کے سر تھا۔ انہوں نے 1881ء میں لندن کے مشتر ایڈورڈ میتھیوز کو ٹراموے کی لائن بچھانے کا ٹینڈر دیا مگر ان لائنوں کی تنصیب کا کام 1883ء میں شروع ہوسکا۔ اکتوبر 1884ء میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور 20 اپریل 1885ء کو کراچی میں پہلی مرتبہ ٹرام چلی۔ اس پہلی ٹرام میں سفر کرنے والوں میں سندھ کے اس وقت کے کمشنر مسٹر ہنری نیپئر بی ارسکن بھی شامل تھے۔
بیسویں صدی میں یہ ٹرامیں ڈیزل کی قوت سے چلنے لگیں۔ کراچی میں ٹراموے کے نظام کا مرکز صدر میں ایڈولجی ڈنشا ڈسپنسری تھی۔ اس ڈسپنسری سے ٹراموں کے کئی روٹ شروع ہوتے تھے جو گاندھی گارڈن‘ بولٹن مارکیٹ اور کینٹ ریلوے اسٹیشن تک جایا کرتے تھے۔رام کی ایک خاص اور دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ اس میں ڈرائیور کے لئے کوئی الگ سے ڈرائیونگ سیٹ نہیں تھی اور وہ بالکل اگلے حصے میں کھڑا ہوکر ایک ہاتھ سے گھنٹی بجاتا رہتا اور دوسرے ہاتھ سے پٹڑی پر چلنے والے لوگوں کو ہٹنے کا اشارہ کرتا رہتا اور دن بھر یہی سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس کا کرایہ دس پیسے تھا اگر آپ کو گرومندر سے ٹاور جانا ہو یا کینٹ اسٹیشن سے ٹاور یا صدر آنا ہو تو اس کا کرایہ دس پیسے ہی تھا اور اس زمانے میں چونکہ کوچز اور بسیں نہیں تھیں تو اکثر لوگ ٹرام سے ہی سفر کیا کرتے تھے۔
ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی کی جانب سے 10 اپریل1885 کو کراچی میں ٹرام سروس کا افتتاح کیا گیا، ابتدا میں ٹرام اسٹیم انجن پر چلتی تھی لیکن فضائی آلودگی اور شہریوں کی تکلیف کے پیش نظر ایک سال بعد ہی اسے گھوڑوں پر منتقل کردیا گیا یعنی ہر ٹرام کے آگے دو گھوڑوں کو باندھا جاتا جو اسے کھینچ کر منزل تک پہنچانے کا کام دیتے اور ایک عرصہ تک ٹرام کو چلانے کے لئے گھوڑوں کا استعمال کیا گیا۔1910میں پہلی مرتبہ ٹرام کو پیٹرول انجن پر منتقل کیا گیا اور پھر1945 میں اسے ڈیزل انجن سے چلایا جانے لگا۔ ابتدا میں ٹرام کیماڑی سے ایم اے جناح روڈ تک چلا کرتی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے سولجر بازار اور کینٹ اسٹیشن تک بڑھایا گیااور اس طرح ایک ٹریک نشتر روڈ سے ایمپریس مارکیٹ تک بھی بنایا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی پورا ٹرامنصوبہ کراچی کے شہری محمد علی چاؤلہ کو فروخت کرکے رخصت ہوگئی اور 30 اپریل 1975 تک ٹرام کا سارا نظام محمد علی ٹرام وے کمپنی کے پاس ہی رہا۔
یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی کی ملکیت تھیں۔ یہ کمپنی 500 روپے سالانہ فی میل کے حساب سے ٹرام لائنوں کی رائلٹی کراچی میونسپلٹی کو ادا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ٹراموے کا یہ نظام محمد علی نامی ایک کاروباری شخص نے خرید لیا اور اس کا نام اپنے نام پر محمد علی ٹراموے کمپنی رکھ لیا۔ اس کمبنی کے مالکان کا تعلق بوہری فرقے سے تھا۔ کمپنی کے زمانہ عروج میں کمپنی کے پاس 63 ٹرامیں تھیں اور اس کا عملہ آٹھ سو افراد پر مشتمل تھا۔ لیکن ایک وقت وہ بھی آیا جب کمپنی کے پاس فقط پانچ ٹرامیں رہ گئی تھی ۔30 اپریل 1975 میں کراچی سے ٹرام وے کا اختتام ھوا
1879: جان بولٹن نےچار فٹ گیج کے ساتھ میں کراچی میں ٹرام وےمیں استعمال کے ساتھ گھوڑے کے لئے الٹی U کی شکل کی ایک خصوصی grooved پل ریل وضع کی۔
*** کراچی کے ٹرام کی تاریخ کے چند اہم پڑاو ***
==============================
1883: کراچی ٹراموے نقل و حمل کے لئے تفصیلی منصوبہ بنایا ھیا اور حکومت سے اجازت لی گئی۔
اکتوبر 1884: کراچی ٹراموے نقل و حمل کی کی تعمیر پر کام شروع ھوا۔
10 اپریل، 1885 کو: بھاپ ٹراموے نقل و حمل کی کراچی میں افتتاح کیا گیا ہے.
1886: کراچی کی بھاپ ٹراموے نقل و حمل کی گھوڑا تیار ٹراموے نقل و حمل کی کی طرف سے تبدیل کر لی.
23 مارچ، 1905 کو: پٹرول ٹرام کراچی میں افتتاح کیا گیا ہے.
1909: گھوڑا تیار ٹراموے نقل و حمل کی کراچی کے بند ہو گیا ہے اور پٹرول سے چلنے والی ٹرام میں تبدیل کردیا گیا تھا. پٹرول کی ٹرام{ tram} نے 46 مسافروں کی نقل و حمل کی صلاحیت تھی اور 18 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی تھی.
1913: اس سال کے آخر تک، پٹرول سے چلنے والی ٹراموں کی تعداد 37 تھی ۔
1955: کراچی میں پٹرول کی ٹرام کی تعداد 64 تک بڑھ گئ تھی۔
30 اپریل، 1975 ء: کراچی ٹراموے نقل و حمل کی کو ختم کردیا گیا۔ اور کراچی کے ٹرانسپورٹ کے نظام پر ایک "مافیا" نے بدعنوان سیاست دانوں اور نوکری شاہی کے ساٹھ مل کر کاراچی کے عوام سے " ٹرام" کا رومانس ختم کردیا اورچند ہی دنوں بعد کراچی کی لوکل ٹرین کو بھی تباہ وبرباد کر ختم کردیا گیا۔ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔