کراچی کی تاریخ میں پارسیوں(زرتشت) کی تعلیمی، فلاحی،طبی اور خیراتی خدمات کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ غیر منقسم ہندوستان میں فولاد کی صعنت،جدید اسٹیج ڈرامہ اور فلمسازی کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئے ۔ ایک عرصے تک کراچی کی پارسی براداری کا یہاں کی تجارتی اور معاشی سرگرمیوں میں اھم شراکت داری رھی ھے ۔ ان میں سے کئی کا تعلق ممبئی کے تجارتی گھرانوں سے تھا۔ ان لوگوں کو جتنا ممبئی عزیز تھا اتنا ھی ان کو کراچی سے بھی لگاؤ تھا۔ کراچی میں پارسیوں کی ایک بڑی تعداد جائیداد کی خریدوفروخت، جہازرانی، ھوٹل اور مشروبات کے کاروبار میں مصروف رھی۔ جس کو کراچی کی معیشت کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
کراچی کے پہلے ناظم شہر(مئیر) جمشید نصروانجی (مدت حکومت، نومبر 1933 تا 3 مئی 1935) کا تعلق بھی پارسی براداری سے تھا۔ 1893 میں ایک پارسی تاجر عادل جی دنشاہ(1844-1936 ممبئی) جو تقریبا آدھے کراچی کی زمینوں کے مالک تھے اور کانگریس پارٹی کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے۔ کراچی کے قلب(صدر) میں ایک خیراتی شفاخانہ کھولا۔ جو شروع میں صرف آٹھ (8) بستروں پر مشتمل تھا۔ کچھ ھی عرصے بعد اس کی ایک شاخ کیماری میں بھی کھولی گئی۔ عادل جی دنشاہ نے اس کے لیے خطیر رقم عطیے کے طور پر دی۔ یہ وھی عادل جی دنشاہ ہیں جن کے عطیے سے کراچی کی مایہ ناز اور معروف این ای ڈی ا نجینرنگ یونیورسٹی قائم ھوئی۔ جو پاکستان کا سب سے قدیم انجنیرنگ تعلیمی ادارہ ھے۔