20 مئی 1961 کو امریکہ کے نائب صدر لنڈن بی جانسن پاکستان کےدورے پر کراچی پہنچے۔ائر پورٹ سے ایوانِ صدر تک کے سفر میں انہوں نے کئی جگہ گاڑی رکوائی اور عام لوگوں سے بے تکلفی سے گفتگو کی۔ ان میں ایک اونٹ گاڑی والا بشیر احمد بھی تھا۔ جانسن نے چلتے چلتے اسے امریکا آنے کی دعوت دیدی۔۔
( یہی جانسن بعد میں پانچ سال سے زیادہ عرصہ ، 22 نومبر 1963سے20جنوری1969 تک ، امریکا کے صدر رہے، پہلے صدر کینیڈی کے قتل پر ان کی جگہ ، اور پھر منتخب ہوکر )
چند روز بعد جناب ابراہیم جلیس نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ میں اس واقعے کا ذکر کردیا۔
امریکی سفارت خانے نے اس کالم کا ترجمہ امریکا بھیجا۔ جانسن کو یاد آگیا اور فوراََ بشیر احمد کو دعوت نامہ بھیج دیا ۔
ذرائع ابلاغ میں یہ خبر پھیلی تو مشہور رسالے ’’ریڈرز ڈائجسٹ ‘‘ کی انتظامیہ نے بشیر احمد کی میزبانی قبول کرلی۔ پاسپورٹ وغیرہ بننے کے بعد بشیر احمد 14 اکتوبر 1961 کو امریکا روانہ ہوا۔
بشیر اونٹ گاڑی والے کو دو ہفتے تک امریکا میں سرکاری مہمان کا پروٹوکول دیا گیا۔ جانسن سے ملاقات ہوئی، ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ، اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر سمیت اہم مقامات کی سیر کرائی گئی۔
بے شمار تحائف ملے جن میں ایک ٹرک بھی شامل تھا۔
بشیر اونٹ والے کا 14 اگست 1992 کو انتقال ہوا تو کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ تیس سال پہلے اخبارات کے پہلے صفحے پر جگہ لینے والا نہیں رہا۔
بشیر ساربان کی یہ تصویر ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کے سامنے کی ہے (پاکستان کرونیکل)
شبیر سومرو صاحب فرماتے ہیں :
دو ٹرک تحفے میں ملے تھے۔ ایک ٹرک اس بیورو کریٹ نے ہتھیالیا تھا جو بطور گائیڈ بشیر ساربان کے ساتھ گیا تھا۔وہ بیوروکریٹ بعد میں وزیر خارجہ بھی بنا.