کراچی کے "سولجر بازار" میں ایک عمدہ کرکٹ گراونڈ کا نام "پٹیل پارک" تھا۔ وہ کون سے پٹیل صاحب تھے۔۔۔ جن کے نام پر یہ پارک تھا۔ تاریخی طور پر یہ پارک مشہور کانگریسی رہنما ولبھ بھائی پٹیل کے نام سے منسوب تھا۔ اگر چہ اس پر کراچی کےتاریخ دانوں میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بحرحال نام بدلنے والوں نے سیاسی توڑ کے طور پر "پٹیل پارک" کا نام تبدیل کر کے "عبدالرب نشتر پارک" رکھ دیا۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاک و ہند میں یہ عجیب سی روایت چل پڑی ہے کہ مشہور تاریخی مقامات، شہروں اور شاہراہوں کے نام تبدیل کیے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر رام باغ کا نام تبدیل کر کے آرام باغ کر دیا گیا، بندر روڈ اب ایم اے جناح روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے اور لائل پور شہر کا نام تبدیل کر کے فصل آباد رکھا گیا۔
تاریخی طور پر 9 نومبر 1965 کو "کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن" نے ایک اہم میٹنگ کی جس کی سربراہی "کےایم سی" کے وائس چیئرمین جناب حافظ محمد حبیب الله نے کی تھی۔ اس میٹنگ کے مطابق متفقہ طور پر یہ طے پایا گیا کہ اہم مسلم لیگی رہنما سردار عبدالرب نشتر کی یاد میں پٹیل پارک کا نام تبدیل کر کے نشتر پارک رکھا جائے۔ اُس کے بعد سے اب تک اس پارک کو نشتر پارک ہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ یہاں پر "کرکٹ میچز" کی جگہ "سیاسی جلسے" ہونے لگے اور پھر اس پارک کو مذہبی اجتماعات منعقد کرنے کے لیے ایک اہم مقام سمجھ لیا گیا۔ کراچی کے اس پارک کی تاریخ نہایت ہی دلچسپ ہے، آج ہم مختصراً اسی پارک کے بارے میں بات کریں گے۔
"نشتر پارک" کو بعض تجزیہ نگار سیاسی اکھاڑہ بھی کہتے رہے ہیں، کیونکہ یہاں پر سیاسی جماعتیں اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کی آزمائش سے گذرتی تھیں۔
تقسیمِ پاکستان سے قبل 1971 کے انتخابات کے دوران جماعت اسلامی نے یہیں "نشتر پارک" میں ایک بڑا سیاسی اجتماع منعقد کیا تھا۔ 1986 میں جنرل ضیاالحق کے آمرانہ دور میں "ایم کیو ایم" (مہاجر قومی موومنٹ) نے الطاف حُسین کی سربراہی میں اسی پارک میں اپنا پہلا کنونشن بھی منعقد کیا تھا اور پھر اتفاق سے کچھ سالوں بعد جب جنرل مشرف کی سربراہی میں ملک پر ایک اور آمرانہ دور کا آغاز ہوا تو "ایم کیو ایم" نے اسی نشتر پارک میں "مہاجر قومی موومنٹ" سے "متحدہ قومی موومنٹ" بننے کا اعلان کیا۔
شہر کے حالات جب خراب ہوئے تو اس کا اثر نشتر پارک پر بھی پڑا تھا۔ یہ جنرل مشرف کا آمرانہ دورِ اقتدار تھا جب 11 اپریل 2006 کو نشتر پارک میں عید میلاد النبی کے مقدس موقع پر "شاہ تراب الحق قادری" کی زیر صدارت ہونے والے ایک بہت بڑے اجتماع میں "بم" کا زوردار دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں"سنی تحریک" اپنے قائدین محمد عباس قادری، افتخار بھٹی اور دیگر کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس دھماکے کی وجہ سے عید میلادالنبی کے اجتماع میں شریک 60 سے زائد افراد ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔
2018 میں پنجاب سپورٹس بورڈ کے زیر اہتمام نشتر پارک میں بنے والی "ای لائبریری" کا تعمیراتی کام مکمل ہوا۔ اس
"ای لائبریری" میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے کھلاڑیوں کو دو کروڑ سے زائد "ای بُکس" تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی 40 لیپ ٹاپ، 20 ٹیبلٹ اور تین ہزار کے قریب مطبوعہ کتابیں بھی موجود ہیں۔
اس "ای لائبریری" میں ایک آڈیٹوریم بھی بنایا گیا ہے جس میں 150 نشستیں ہیں، جبکہ ایک ہال بھی موجود ہے جس میں مختلف تقریبات منعقد کرنے کی سہولت میسّر ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر "آئی ٹی روم" اور "ریڈنگ روم" بھی بنائے گئے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی سے لیس اس لائبریری کے باوجود "نشتر پارک" کی شناخت ابھی بھی محرم الحرم کی مجالس اور بارہ ربیع الاول کے جلسے جلوس ہی ہیں جبکہ سیاسی جلسے جلوس منعقد کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں نے اب "ایم اے جناح روڈ" کا انتخاب کر لیا ہے۔
“