قصہ انگریز کے قبضے کے بعد پہلی پھانسی کا:یہ تصویر کراچی کے دیھ "اوکیواڑی" کی ہے،اصل نام "اکن واری یا اکین واری" تھا،جو بگڑ کر اوکیواڑی ہوا،جب سروے کام شروع ہوا تو نقشے میں بھی اوکیواڑی لکھا گیا یہاں "آک"(سندھی میں آک کو اک کہتے ہیں )آک کے درخت یہاں بہت ہوتے تھے،اس لئیے یہ علاقہ اکن واری /اکین واری مشہور ہوا۔آک آج بھی کثیر تعداد میں دیھی علاقوں میں موجود ہے'جیل تک کراچی میونسپلٹی کا علاقہ تھا،اس کے بعد ضلع لوکل بورڈ کراچی کے حدود شروع ہو تے تھے،یہ نقشہ پہلی مرتبہ 1915 میں بنا،جس کے اطراف میں،دیھ ڈرگھ روڈ،دیھ صفوراں،دیھ گجھڑو اور کراچی مونسپلٹی کے علاقے دیکھے جا سکتے ہیں۔اوکیواڑی کا علاقے اس وقت گلشن اقبال سرکلر ریلوے لائین تک،،ڈالمیان،محمد علی جوھر سوسائٹی،کارساز،،پرانی سبزی منڈی پر مشتمل ہیں۔انگریز کے آنے سے پھلے اور بعد میں 1947 تک یہاں کچھ گوٹھ ،چراگاھیں،کیت تھے لیاری ندی کے کنارے جیلانی ریلوے اسٹیشن ،اردو کالج سے ڈالمیا تک باغات تھے،انگریز نے پورے سندھ پر 1843 میں قبضہ کیا،لیکن کراچی پر -1839 میں حملہ کیا،اور اپنی فوج یہاں رکھی،کراچی پر حکومت ٹالپروں کی تھی ،لیکن عمل دخل انگریز کا تھا۔کراچی پر حملہ پھلی فرور 1839 کیا اور کراچی کا قلعہ ٹالپروں نے لکھ کر انگریز کے حوالے کیا تھا۔کراچی پر قبضے کے وقت انگریز کسی مزاحمت کا سامنہ نہیں کرنا پڑا،سوائے ایک دو واقعات کے،جس میں ایک واقعہ جس کا میں ذکر کر رھا ہوں،باقیوں ذکر کسی اور دفعہ۔دیھ اوکیواڑی کا جو نقشہ پوسٹ کیا ھے ،جس میں آپ کو جو دو دائرے نظر آرھےہیں ،زاوم کر کے دیکھیں تو ایک میں لکھا ہے"جبل چاکر فھائی"،(پھاڑ چاکر پھانسی)،دوسرے دائرے میں لکھا ھے"ڈورو چاکر فھائی(چاکر پھانسی برساتی نالا)،دائرہ پڑھنے والوں کے سہولت کے لئے میں نے دیئے ہی،انگریز دور میں سندھی سرکاری زبان تھی،دفتری کاروائی سندھی میں ھوتی تھی۔اس لئے اس نقشے اور اس دور کے تمام نقشے،سندھ ،ریوینو ریکارڈ،پولیس ریکارڈ سب آپ کو سندھی میں ملینگے۔اب قصہ چاکر کا:جب فروری 1839 انگریز فوج نے کراچی کے قلعے پر قبضہ کیا تو کراچی والوں کے جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ھوئی، جس کے بہت سے اسباب ہیں،جن پر تفصیل سے میں نے اپنے کتاب"کراچی سندھ جی ماروی" میں لکھا ہے۔کچھ دوستوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا،جن میں چاکر خان کلمتی،چاکر خان جوکھیو،سائین داد ،پیش پیش تھے ۔ان کا لیڈر چاکر خان کلمتی تھے ،چاکر خان کا تعلق شاھ نورانی کیے خلیفہ کے خاندان سے تھا،جو آج بھی شاھ نورانی کیے درگاھ کے مجاور ہیں۔جو "رجیرا" کلمتی کہلاتے ہیں۔چاکر خان منگھو پیر میں رھتا تھا،اوکیواڑی تک وہ بھیڑ بکریاں چراتا تھا،وہ اور ان کے دوست انگریزکے عمل دخل پر نظر رکھے ہوے تھے،ایک دن ایک انگریز کیپٹن ھینڈ اپنے بیوی دو مقامی سپاہیوں کے ھمراہ شکار کے لئے نکلے تھے،شکار کے بہانے وہ علاقے کا جائزہ بھی لیتے تھے ،ایک جگہ سپاہیوں کو ٹھہرنے کہاکہ کر کیپٹن اپنے بیوی کے ساتھ آگے نکل گئے۔موقعہ اچھا دیکھ کر چاکر خان نے کیپٹن ھینڈ کو قتل کیا،یہ مئی 1839 کی ایک گرم شام تھی،چاکر خان اور اس کے ساتھی کیپٹن کی بیوی اور اسکے گھوڑے کو لیکر خان آف قلات کے پاس پہنچے ،انگریز کے خوف سے خان آف قلات نے انہی مدد اور پناہ دینے سے انکار کیا،انکار کے بعد چاکر نے کیپٹن ھینڈ کی بیوی کو خان کے حوالے کرتے ھدایت کی کہ اسے واپس خیریت سے کراچی روانہ کردو۔کراچی میں انگریز کیمپ میں جب رات گئے کیپٹن ھینڈ نہیں پہنچے،تو سب پریشان ھوئے ،تلاش شروع ہوئی تو اس کی لاش ایک پہاڑی کے نیچے گڑھے میں پڑھی ملی،چھاؤنی کے کمانڈر کرنل اسپلرسمیت سب پریشان تھے۔نائوں مل بوجوانی کو بلایا گیا،اس دور میں کراچی میں بوجوانی سیٹھوں کا مکمل کنٹرول تھا،یہ خبرملتےہی چھاؤنی میں ایک اھم میٹنگ بلائی گئی،سپاہیوں باھر جانے پر پابندی لگائی گئی۔دوسرے دن یہ بات جنگل کے آگ کے طرع پورے علاقے میں فہیل گئی۔کھوجیوں کو بلایا گیا۔جنہوں نے زمینی حقیقتیں دیکھنے کے بعد یہ اطلاع دی کہ اس کاروائی میں دس لوگ شریک رھے۔یہ بھی پتا چلا کے چاکر خان کے ساتھ جوکھیو،کلمتی اور چُھٹہ قبیلے کے لوگ تھے۔انگریز نے ٹالپروں ،خان آف قلات ،جام آف لسبیلہ اور برفت، چُٹھ،کلمتی اور جوکھیو قبائل کے سرداروں کو بھی خط لکھے اور کہا کہ چاکر خان کے گرفتاری میں مدد کی جائے اس سلسلے میں نائوں مل جن کا سب سے واسطہ تھا بہت سرگرم تھا ،چاکر خان پیش ہونے کے لئے پیغام بیجا گیا،جواب میں چاکر خان نے کہا"جب تک انگریز کراچی خالی نہیں کرتے ان پر حملے کرتے رہینگے "۔چاکر خان کے گرد گہرا تنگ کیا گیا ۔قصہ مختصر ،بلا آخر چاکر حب کے قریب سے گرفتار ہوا،گرفتاری میں چُھٹہ قبیلا کے سردار حاحب خان اھم کردار ادا کیا،جس کو بعد جاگیریں عطا کی گئیں ۔اور شاھ نورانی درگاھ کا انتظام بھی اس کے کیا گیا۔گرفتاری کے بعد چاکر خان کو کراچی لایا گیا،سندھ میں ٹالپر حکمران تھے ،لیکن چاکر کو ان کے حوالے کرنے کے بجائے انگریز نے خود مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔چاکر خان کو کراچی کے فوجی کیمپ میں رکھا گیا۔فوجی عدالت بنائی گئی،جو موجودہ پاکستان کے علاقوں پر مشتمل یہ پہلے بننے والی فوجی عدالت تھی۔جس کے تیں میمبر تھے،کرنل اسپلرسمیت،میجر ڈونوھی اور سیٹھ نائوں مل پر یہ عدالت مشتمل تھا۔فوجی عدالت نے چاکر خان کو پھانسی کی سزا سنائی۔اس سے آخری خواہش پوچھی گئی ۔چاکر خان نے اپنی آخری خواہش میں کہا کہ،" مجھے کسی اونچے پھاڑی یر پھانسی دی جائے تاکہ میں آخری وقت تک اپنی دھرتی ملیر کو دکھ سکوں"۔ایسائی کیا گیا موجودہ ڈالمیان کے علاقے کے سامنے ایک پھاڑی پر تختہ دار سجایا گیا۔اوپر چڑھنے کے لئیے ۱۰۰ سؤ عارضی سیڑھیاں بنائی گئی۔پھاڑی کے طرف آنے والے تمام راستے بند کردئیے گئے۔یہ دسمبر 1839کا ایک سرد دن تھا،چاکر خان کو سخت پہرے میں لایا گیا،وہ اوپر چڑھنے کے جو عارضی راستہ بنایا گیا تھا،چاکر خان ایک سیڑھی کو چومتا ہوا اوپر تک گیا ،جہاں پر عارضی پھانسی گھاٹ بنا گیا تھا،چاکر خان کو کہا گیا کہ آپ مسلمان ہیں قبلہ منھں کریں،چاکر نے اپنا چہرہ ملیر کے جانب کرتے ہوئے کہا،"میرا قابہ اور قبلہ ملیر ہے،آخری سانس تک میں ملیر کے کیت،باغات اور پہاڑیاں دیکھنا چاہتا ہوں"۔پھانسی کے بعد اس کے لاش کو منگھو پیر کے درگاھ کے خلیفہ کی گئی۔نائوں مل کے کتاب"The memories of Seth Nao Mal Hotchand" یہ روداد شامل ہے پھانسی کےبعد پہاڑی کے پہاڑی پر لوگوں پتھر جمع کر کے یادگار بنائی جس کا ذکر رچرڈ برٹن نے اپنے کتاب "Scinde:Unhppy Valley-1851 میں کیا ہے،برٹن چاکر کو ڈاکو لکھتیں ہیں۔اس کے بعد یہ پھاڑی چاکر پھائی پھاڑی مشہور ہوئی ۔لوگوں عمل دخل کو روکنے کے یہ علاقہ فوج کے حوالے کیا گیا،جو آج تک فوج کے کنٹرول میں ہے۔جب میں نے پہلی بار اس گمنام ھیرو پر لکھا ،آرٹیکل شائع ہونے کے بعد،بہت سے دوستوں نے لکھا کہ چاکر خان کو کہاں دفن کیا گیا؟اور اس کی قبر کہاں ہے؟جو بہت مشکل کام تھا،کیونکہ کے لاش کو منگھو پیر میں غسل دینے کے بعد کہاں دفن کیا گیا کوئی احوال نہیں مل رھا تھا،برٹش لائبریری سے رابطہ کیا تو کیپٹن ھینڈ کا تفصیل کے ساتھ ذکر ملا،اس کے بیوی کا نام Maltida Watson تھا،یہ بھی انفارمیشن دی گئی کہ قتل کے بعد الیگزینڈر ھینڈ کو کولابا ممبئی کےافغانستان میموریل چرچ کے قبرستان میں دفن کیا گیا،ھمارے کچھ محققین بنا کسی تحقیق کے لکھتیں ہیں کہ کیپٹن ھینڈ کراچی میں بندر روڈ کے عیسائی قبرستان میں دفن ہیں ،جو درست نہیں۔چاکر کے باری میں کوئی انفارمیشن نہیں ملی تو میں نے اپنے طور چاکر کی قبر کی تلاش شروع کی،منگھو پیر،میوہ شاھ،مورڑو،کارا در ،پیر مجنوں گھگھر،سارے قبرستانوں میں خاک چھاننے کے بعد بھی کامیابی نہیں ملی ،اس تلاش کےوجہ سے لوگوں نے مجھے ،"گلو قبرستانی "کا نام دیا، ایک دن منگھو پیر میں تلاش میں تھک ھار کے میں اکبر کاچھیلو،اسماعیل بلوچ ،اکبر کاچھیلو کے اوطاق میں بیٹھے تھے کہ اکبر کا دوست علی نواز کلمتی جو شاھ نورانی کے خلیفہ کے فیملی میں سے تھا وہاں آگیا۔حال احوال کے بعد علی نواز نے مشکل آسان کر دی،اس نے کہا منگھو پیر میں لاش کو غسل دینے کے بعد انگریز کے ڈر سے یہاں دفن کرنے کے بجائے چاکر خان کو شاھ نورانی میں دفن کیا گیا،میں نے نورانی کا رخت سفر باندھا ,بل آخر چاکر خان کے قبر تک پہنچا۔چاکر خان کی قبر اپنے بھائی صادق عرف صدقی کے ساتھ ہے۔تصویریں بنائی ،تاریخ کے پنے سے غائب ھیرو کو میں نے لوگوں میں روشناس کرایا۔مکمل مضموں میرے کتاب"کراچئ جا لافانی کردار"حصہ اوّل میں موجود ہے۔غور کریں اس وقت بہت کم انگریز کراچی میں تھے،ٹالپر حکمران،خان آف قلات،جام آف لسبیلہ،مقامی سردار ان باغیوں کا ساتھ دیتے تو آج صورتحال شاید مختلف ہوتی،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...