ہماری ایک فیسبک فرینڈ جو کہ شکاگو میں مقیم ہیں نے ایک کمنٹ میں ارشاد فرمایا ہے کہ انہیں تو دسمبر بہت ہی اداس اور سڑیل مہینہ لگتا ہے۔ اب اس میں ان کا کوئ قصور بھی نہیں کیونکہ امریکہ اور یورپ والے دسمبر کا مزہ کیا جانیں۔ شکاگو اور لندن والے تو دسمبر کو کوستے ہیں کہ وہاں سال کے آٹھ ماہ اپنےمری کے دسمبر جیسا موسم رہتا ہے، وہاں بھلا دسمبر کا کیا لطف! ۔ دسمبر کا مزہ تو پاکستان میں ہے کہ جب جون، جولائ کی گرمی کے جھلسے ہوئے لوگوں کو یخ بستہ ہوائوں میں انواع و اقسام کےسوپ، تلی ہوئ مچھلی، خشک میوہ جات، حلوہ جات اور رات کو لحافوں میں دبک کرگرما گرم مونگ پھلی ٹونگنے میں مزہ آتا ہے۔ ویسے پاکستان میں شاید سب سے کم سردی کراچی میں پڑتی ہے۔ گرمی میں تو کراچی خود کفیل ہے لیکن سردی کے لئے کوئٹہ کا محتاج ہے۔ جب پورے ملک میں شدید سردی پڑنے لگتی ہے اور ٹی وی پر مختلف شہروں کاسرد اور منجمد درجہ حرارت بتایا جاتا ہے تو کراچی والے بھی شوق میں آکر کمبل اور گرم کپڑے نکال لیتے ہیں کہ سردیاں آ گئ ہیں۔ کراچی میں اگر تیس ڈگری ٹمپریچر مئ میں ہو تو گرمیاں ہیں اور آپ کو روح افزا پینا چاہئے۔ اور اتنا ہی ٹمپریچر اگر دسمبر میں ہو تو سردیاں ہیں لهذه آپ کو چکن کارن سوپ نوش جاں کرنا چاہئے۔ ۔ دسمبر کے شوق میں کراچی والے کمبل تو نکال لیتے ہیں لیکن جب ان میں گرمی لگتی ہے تو امید بھری نظروں سے کوئٹہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید سرد ہوائوں کی نظر التفات کراچی کی طرف بھی ہوجائے تو ہم بھی سردی کا لطف اٹھائیں۔ ادھر کوئٹہ والے پہلے ہی سردی سے بے حال افغانستان کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کاش کوئ گرم پڑوسی ہوتا۔ ( پڑوسی کو پڑوسن نہ سمجھئے گا ) – ادھر افغانستان والے سردی سے قلفی بنے روسی ریاستوں کی جانب غصہ بھری نظروں سے گھورتے ہیں۔ روسی سارا غصه سائبیریا سے آنے والی سرد ہوائوں پر اتارتے ہیں کہ اس نے سمندر تک کو جما کر نیلا تھوتھا کردیا ہے۔ نہ یہ موا سائبیریا ہمارے پڑوس میں ہوتا نہ گرم پانی کے چکر میں افغانستان میں ہماری دھلائ ہوتی۔ دھلائ بھی ایسی دھوبی پاٹ والی کہ لیرا لیرا ہوگئے۔
پاکستان میں عام لوگوں کو مغرب جيسى دیگر تفریحات وتقریبات کے مواقع تو دستیاب نہیں ہیں بلکہ تھائ اور جاپانی انداز کا مساج کرانا بھی قابل دست اندازیٴ پولیس جرم سمجھا جاتا ہےاور پولیس آئے دن ایسے مساج سینٹرز پر چھاپے مار کر مساج کرنے والیوں اور مساج کروانے والوں کو ہانک کر تھانے لے جاتی ہے جہاں مساج کروانے والوں کی پہلے خود اپنے انداز سے مزاج پرسی اور مساج پرسی کرتے ہیں پھر تھک ہار کر مساج کرنے والیوں سے اپنی مساج پرسی کرواتے ہیں۔ البتہ مرد حضرات سے مساج کروانے پر کوئ پابندی نہیں ہے لیکن صاف بات ہے کہ ہماری تو کبھی ہمت نہیں پڑی کہ بنوں۔ مردان اور سرائیکی بیلٹ کے مرد حضرات جو اکثر شام سے لے کر رات گئے پبلک مقامات پر سرسوں اور زیتون کے تیل کی بوتلیں کھڑکاتے پھرتے ہیں سے اپنا مساج کروائیں- ایک زمانے میں رات کےوقت ڈیفنس زمزمہ اسٹریٹ کے کاپر کیٹل ریسٹورنٹ کے باہر خوبرو نوجوان کھڑے پائے جاتے تھے جو کہ مساج کی خدمات فراہم کرتے تھے اور کئ خواتین انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے جایا کرتی تھیں- اب یہ سہولت فیس بک کے بے شمار پیجز پر دستیاب ہے جہاں مرد و خواتین مساج کی ہوم سروس دینے کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہیں-
لہٰذہ عوام اس ڈپریشن کا تمام تر غصہ اور جوش و جذبہ و ذوق و شوق ،گائے، بھینس، مرغیوں، بکروں، بھیڑوں اور مچھلیوں پر نکالتے ہیں بلکہ اب تو گدھوں کو بھی انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔۔سنا ہے کہ کھوتے کے گوشت سے پرواز میں کوتاہی کے بجائے کھوتائ پیدا ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ بلدیاتی الیکشن کے نتائج میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں تو موسم سرما میں ہر علاقے کے اپنے کھابے اور خاص سوغاتیں۔ حلوہ سوہن۔ گاجر کا کھوئے والا گرما گرم حلوہ، مختلف اقسام کے سوپ، ، حلوائ کی دکانوں پر گرما گرم دودھ اور جلیبی، چپلی کباب، اور اسپیشل انڈے والے پکوڑے، فرائ مچھلی، گجرانوالہ کے چڑے، ملتان کا سوہن حلوہ، سردیوں کی ویران راتوں میں رات گئے گرم انڈے کی صدا لگاتے انڈا فروش، ۔پٹھان بھائیوں کے ڈرائ فروٹ سے بھرے ٹھیلے اور جلتے ہوئے چولہے پر رکھی کڑاھی کے اندر گرم ریت میں بھنتی مونگ پھلی۔ گزک، تل کے لڈو، مونگ پھلی کی پٹی اور میوے والا گڑ۔ ہر ایک دو گھنٹے بعد چلتے چائےكافى کے دور۔ کراچی والےنہاری تو سارا سال کھاتے ہیں لیکن پائے کھانے کے لئے سردیوں کا انتظار کرتے ہیں البتہ لاہوریوں کوپائے کھانے کے لئے سردی کا بہانہ درکار نہیں ہوتا۔ وہ سارا سال اسی اسپیڈ اور مقدار میں کھاتے ہیں۔ سردیوں میں گرم پستے والا زعفرانی دودھ اور آدھا کلو جلیبی فی کس جبكه گرمیوں میں ایک درجن پوری اور ایک پائو حلوہ فی کس کے بعد ایک لٹر والے گلاس میں بھری یخ بستہ پیڑےوالی لسی كا ناشته۔ البتہ سری پائے اور ہریسےکی مقدار سردیوں میں دگنی کر دیتے ہیں۔ پٹھان بھائ پشاوری چپلی کباب، مٹن کڑاھی، چرسی کے تکے، نمکین گوشت اور پکوڑوں سے سردی کا زور ٹوڑتے ہیں تو کوئٹہ والے سجی اور گرما گرم دودھ جلیبی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کراچی والے ان تمام سوغاتوں سے محظوظ ہوتے ہیں کہ کراچی میں آپ کو ہر رنگ اور نسل کے پنچھی ملين گےجو اپنے اپنے علاقے کی سوغات کو کراچی میں انجوائے کرتے ہوئے اپنے گائوں یا قصبے کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا ایک پٹھان چوکیدار بھنے ہوئے مکئئ کے دانے کھاتے ہوئے اچانک طیش میں آ گیا کہ خوچہ یہ مکئ ہے یا چنا؟ پھر اپنےڈھائ کلو کے ہاتھ کے انگوٹھے کے ناخن کو دکھا کر بولا کہ اودر امارا خیبر میں مکئی کے دانے کا سائز اتنا ہوتا ہے۔ ایک دانے کا یہ سائز سن کر ہم تصور میں خیبر کے بھٹے کے سائز کا تصور کر کے کچھ خوفزدہ سے ہو گئے۔ کراچی والے حسب ذوق تمام صوبوں کی سوغاتوں کا مزہ اٹھاتے ہیں كه كراچی میں سب ملتا ہے۔کراچی میں بھنگ بھی بہت مقبول ہے اور اس کو وی وی وی آئ پی مشروب کا درجہ حاصل ہے۔ میرے جیسے ناقص العقل كى معلومات تو يهى تهى كه یہ گرمیوں میں پی جاتی ہے لیکن حال ہی میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملے پر جو رویہ دیکھنے میں آیا تو یہی اندازہ ہوا کہ یہ سردیوں میں بھی برابر استعمال کی جارہی ہے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس کی ٹھنڈی تاثیر مارنے کے لیے اس كوپانی کی جگہ اسکاچ وہسکی میں گھوٹ کراستعمال کیا جاتا ہو۔ ۔
سردیوں میں باقی ملک کے لوگ جب ڈبل لحافوں اور پانچ پانچ کلو کے کمبلوں میں دبک کر گرما گرم کافی کا لطف اٹھاتے ہیں تو کراچی والے آدھا کلو کا کمبل اوڑھ کر ائیر کنڈیشنر چلا کر مونگ پھلیاں کھاتے ہیں اور رب کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے سردی بنائ۔ سردی کے موسم میں لڑکیوں بالیوں کے گال گلابی ہونے لگتے ہیں جس میں زیادہ دخل سردیوں میں بننے والے مصفا خون اور انار، کینو اور مالٹے کا ہوتا ہى لیکن لونڈے بالے اس کو شرم و حيا پر محمول کرتے ہیں کہ شاید ان کی محبت اور چھچھوری باتیں سجنی کے گلوں میں رنگ بھر رہی ہیں۔ (گلوں کو پیش کے ساتھ پڑھا جائے زبر کے ساتھ نہیں )-۔
باہر سڑکوں پر شام کو نکلو تو فضا میں جمی خوشبو اور سڑک کنارے بیلے اور گلاب کے گجرے اور کنگن بیچتے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ کر بے اختیار دل کرتا ہے کہ کوئ ہماری بھی محبوبہ ہوتی جسے یہ گجرے پہناتے۔ جو کنوارے سارا سال اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں اور شادی شدہ حضرات کو استہزائیہ انداز میں دیکھتے ہیں وہ دسمبر اور جنوری میں ضرور پچھتاتے ہیں۔ خواہ مخواہ دل کسی سے رومانس کو مچلنے لگتا ہے۔ جزبات خواہمخواہ انگڑائیاں لینے لگتے ہیں اور مچلتے جزبات کا سیلاب بہہ نکلتا ہے۔ شاپنگ مالز میں مختلف پرفیومز کی مهك، موسچرائزرز كى خوشبو، جدید تراش لباس میں ملبوس شیمپو و کنڈیشنر شدہ زلفوں کو انگلیوں سے سنوارتی پری چہرہ نازنینوں کو گرم نگاہوں سےگھورتے مرد ۔۔۔ لیکن اگر کوئٹہ کی ہوائیں کچھ زیادہ ہی مائل بہ کرم ہو جائیں توبعض اوقات اونی ٹوپے سے ڈھکے سر اور مفلر میں لپٹے چہرے کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہو پاتا کہ اس کے جنوب میں مونچھیں ہیں یا پنکھڑیاں گلاب کی۔!
سال کے نو مہینے مجبورا'' صرف پینٹ اور شرٹ یا شلوار قمیض پہننے والوں کو بھی ڈھنگ کے کپڑےپہننے کا موقع مل جاتا ہے۔ مجبورا'' کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ پاکستان کی گرمیوں میں آپ صرف کچھے اور بنیان میں آفس یا کام پر نہیں جا سکتے۔ يه گھر میں پہننا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا بلکہ ایک زمانہ تو وہ تھا کہ اگر کوئ بچہ یا نوجوان بغیر ٹوپی کے نظر آ جاتا تھا تو بڑے بوڑھے پوچھتے تھے کہ میاں یہ ننگ دھڑنگ کہاں گھومتے پھر رہے ہو؟ لیکن بھلا ہو امریکن انگریزی کا کہ اس نے کچھے بنیان کو ٹی شرٹ، سلیوز لیس، برمودا،اور باکسرز شارٹس کا نام دے کر سر عام پہننے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ سردیوں میں اپنی شادی اور ولیمے کا سوٹ یا پھر لنڈے کے سوئٹرز، کوٹ، بُوٹ اور اسکارف گلے میں ڈالے اکثر حضرات اس مشہور گیت کی تفسیر بنے نظر آتے ہیں –
'' سالا میں تو صاب بن گیا
صاب بن کے کیسا تن گیا
یہ سوٹ میرا دیکھو
یہ بوٹ میرا دیکھو
جیسے گورا کوئ لندھن کا
طارق روڈ کے ڈولمن سینٹر میں بڑی گھیر کے شلوار قمیض اور جاگرز میں ملبوس سندھی ٹوپی پہنےایک سائیں جو وضع قطع سے تازہ تازہ شکارپور سے کراچی میں وارد ہوئے معلوم ہوتے تھے تین چار دکانوں سے مایوس ہو کر چوتھی دکان پر مردانہ کپڑوں کی دکان کے سیلزمین سے اصرار کر رہے تھے کہ انہیں ان کے سائز کےبریزر دکھائے جائیں۔ سیلزمین نے پہلے تو حیرت سے انہیں دیکھا پھرآداب دکانداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کو متین سینٹر جانے کا مشورہ دیا جہاں زنانہ سامان دستیاب ہوتا ہے۔ اس پر سائیں صاحب غصے سے بولے کہ۔ '' کہ بابا کیوں ہرو بھرو جوٹھ بولتے ہو، وہ سامنے اتنا سارا بریزر کس کے لیے لٹکایا ہے؟ سلزمین کی نظروں نے ان کے اشارے کا تعاقب کیا تو ان کی مراد بلیزر تھی۔ اس سرد موسم مين وہ واحد مخلوق جس کو اس موسم میں بھی سردی نہیں لگتی وه شادی اور پارٹی اٹینڈ کرنے والی خواتین ہیں کہ جو بغیر کسی گرم کپڑے یا شال کےسلیولیس میں اپنے سڈول بازوئوں اور ڈیزائنر ڈریس کی ایمبرائیڈری کی نمائش كرتى نظر آتی ہیں۔ شاید ارد گرد موجود مرد حضرات کی نگاہوں کی تپش ہی کافی ہوتی ہے۔
پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی والوں کا کام تو ویسے بھی نہیں
چلتااور شادی شدہ سے زیادہ غیر شادی شدہ ان کے مشوروں اور گولیوں میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔ لیکن سردیوں میں تو ان کے بنائے تمام بند اور پشتے بہہ جاتے ہیں۔۔
الٹی ہو گئےسب مشورےکچھ نہ گولیوں نے کام كيا۔
یہ سارا کیا دھرا حکیم حضرات کا ہوتا ہے جو پورے سال کی کمائ اس دو ماہ میں کر لیتے ہیں۔ ایسے ایسے مرکبات معه لچھے دار خصوصیات کہ اگر اسی سالہ بوڑھے کا مردہ بھی پڑھ لے تو کفن پھاڑ کر سہرا باندھنے کو بیتاب ہوجائے۔
ایسے ہی ایک 80 سالہ بڑے میاں سردیوں میں کسی حکیم کی معجون شباب آور اور مااللحم سہہ آتشہ پی کر ایک بیس سالہ دوشیزہ سے شادی کے لئے بیتاب ہوگئے- ڈاکٹر نے انہیں متنبہ کیا کہ بڑے صاحب اس عمر میں شادی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے!
بڑے میاں چھاتی پھلا کر بولے، ارے سسری مرتی ہے تو مرجائے، مجھے پرواہ نہیں-
حکیم لوگ ماللحم دو آتشہ ، حلوہ گھیکوار، اور لبوب کبیر کے اشتہارات ایسی لذیذ ترغیبات اور تشریحات و لچھے دار عبارتوں کے ساتھ شائع کرتے ہیں كه پڑھ کر ہی گال تمتمانے لگتے ہیں اور ایک اميد صبح نو کی کرن خوابیدہ احساسات کو بیدار کر دیتی ہے۔بعض اوقات تو یہ للچا دینے والی ترغیبات پڑھنے والے کی حسرتوں کے غبارے میں امید کی اتنی ہوا بھرتی ہے کہ وہ وقت سے پہلے ہی پھٹ جاتا ہے۔ ۔ دیواروں پر جلی حروف میں پلنگ توڑ کیپسول اور حبوب خرمستی کا اشتہارتو ان گنہگار آنکھوں نے خود دیکھا ہے۔ مچھلی مراد كستورى زعفرانى کیپسول نامی ایسى هى دوا ہمارے ايك حريص دوست نے لالچ میں آ کر مقررہ خوراک سے تین گنا زياده مقدار میں کھا لى اور نتیجتا'' ساری رات بے مراد پانی کی ٹنکی میں کستورا مچھلی بنےبیٹھے رہے اور بیگم زعفرانی جوڑا پہنے ان کا انتظار ہی کرتی رہ گئیں۔۔ ۔ ۔ماه دسمبر مين سال کے دس مہینے ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کر کے سونے والے بیزار جوْْڑوں میں بھی عمرانى روح ( عمران ہاشمی والى خان صاحب والى نهين ) بيدار هو جاتى هے اور ان کی ترتیب خوابى ، بالپُشتى سے بالمشافى میں بدل جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگلے سال جاتی گرمیوں کےمہینوں کے دوران میٹرنٹی ہومز اور اسپتالوں کے زچہ وارڈ میں بیڈ کم پڑ جاتے ہیں۔
دسمبر کی سردی میں جو دلبر کو لکھا تھا
اسی خط کا جواب آیا ہے آخر کار گرمی میں
ہمارے ایک عزیز دوست کہتے ہیں کہ
کراچی میں سردیوں میں ان گھروں میں بھی بہت امن ہوتا جہاں میاں اور بیوی کی چپقلش مشہور زمانہ ہوتی۔ وجہہ بس اتنی سادہ تھی کہ ہر لڑائی کے بعد جب صلح ہوتی تو نتیجہ علی الصبح غسل کی صورت میں ہوتا۔ گیزر نہ ہونے کی وجہہ سے پہلے ایک پتیلہ پانی گرم ہوتا اور غسل خانہ فارغ ہونے تک دوسرا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اچھی اچھی تیز طرار بیگمات بھی سردیوں کی لڑائی میں چپ سادھ لیتی تھیں کہ منانے اور صلح کرنے تک لڑائی طویل نہ ہو
دسمبر کا احسان اردو شاعری بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ دسمبر شاعری کرنے کے لئے شاعر ہونے کی قید سے آزاد کردیتا ہے۔ لڑکپن میں کسی لڑکی سےفقط ایک آدھے گھنٹے کی ملاقات بھی گویا ایک داستان عشق بن جاتی ہےجس کی یاد کی کسک اور تپش دسمبر کی سردی میں ایک ایسی آگ سینے میں بھڑکا دیتی ہے کہ جس کے شعلوں کی حدت سے اردو شاعری دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو جاتی ہے ۔اردو شاعری کو ایسے ایسے شاہکار شہ پارے ملتے ہیں کہ میر اور غالب زندہ ہوتے تو اپنے آپ سے شرمندہ ہو کر منہ کمبل میں چھپا لیتے۔
تو جناب یہ جو جاڑا ہے ہم کو بہت پیارا ہے۔ همارا تو يهى دل كرتا كه دسمبر كبهى نه جائے۔۔۔۔۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی دسمبر کے رات دن
لیٹے رہیں معانقہ جاناں کئے هوئے