ہمارے بڑے بھائی عائشہ باوانی کالج میں پڑھا کرتے ان کے ساتھ میں کئی بار اس اس قبرستان دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے ہم مکتب دوست اور روزنامہ " جسارت" کے صحافی اویس گوہر مرحوم گورا قبرستان کے عقب میں واقع ایک محلے بزٹہ لائن میں رہتے تھے۔ میں ان کے ساتھ اس قبرستان میں چہل قدمی کرچکا ہوں۔ اس قبرستاں کا انتظام کا دیکھ کر رشک آتا تھا۔ یہ بہت صاف ستھرا قبرستان ہوتا تھا۔
لگ بھگ پچیس ایکڑ پر پھیلے اس تاریخی قبرستان کی بنیاد 1850ء سے پہلے انگریزوں کے دور میں رکھی گئی، جس وجہ سے اسے گورا قبرستان کہا جاتا ہے، تاہم اس قبرستان میں پہلی تدفین کب ہوئی اس سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قبرستان میں سب سے پرانی قبر 1885 کی موجود ہے۔ قبرستان میں1887 اور 1891 کی قبریں بھی زبوں حالت میں موجود ہیں، جن پر اس زمانے کے قیمتی پتھر پر سال اور تاریخیں درج ہیں۔
گورا قبرستان، ( Karachi War Cemetery) دوسری عالمی جنگ کے فوجیوں کی تدفین کے لیے بنایا گیا تھا اس قبرستان میں پولینڈ اور برطانیہ کے فوجیوں کے علاوہ، عام مسلمانوں اور مسیحیوں کی بھی قبریں ہیں۔
اس قبرستان میں 1930 قبریں ہیں ،جن میں 3 لاکھ کے قریب لوگ دفن ہیں۔ گورا قبرستان میں ایک بڑی تعداد میں برطانوی فوجیوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جبکہ جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو سنہ 1942ء سے 1945ء کی درمیانی مدت میں پولینڈ کے تقریباً 30 ہزار شہریوں نے کراچی میں پناہ لی تھی۔ انہیں کنٹری کلب اور ملیر میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔ پناہ گزینی کے دوران 58پولینڈشہری انتقال کر گئے جو اسی قبرستان میں مدفن ہیںیہ نوآبادیاتی دور کی قبریں ہیں۔ قبروں پر لگے کتبوں کے اعتبار سے دیکھیں تو سب سے قدیم قبر 1851ء کی ہے۔ لیکن، تاریخی حوالوں میں اس قبرستان کے قیام کی تاریخ 1845ء درج ہے۔
گورا قبرستان کی ایک قبر میں3 سے 4 آدمی دفن ہیں، جگہ کی کمی اور مجبوری کے باعث گورکنوں نے بڑی مہارت سے ایک قبر میں ایک سے زائد لوگ دفنا ئے ہیں۔
گورا قبرستان کی دیکھ بھال کیلئے 14 ملازم ہیں، جن کو قبرستان انتظامیہ تنخواہ ادا کرتی ہے، قبرستان میں کل وقتی 5 گورکنوں اور 5 چوکیداروں سمیت 3 خاکروب اور ایک سپروائزر مقرر کیا گیا ہے۔ قبرستان کے ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے 4 ممبران ہوتے ہیں، جن میں سے 2 پروٹیسٹنٹ اور 2 رومن کیتھولک فرقے کے ممبران ہیں جبکہ سیکریٹری ایڈمنسٹریشن کو چرچ آف پاکستان مقرر کرتا ہے، جس کی مدت 5 برس ہوتی ہے،اس مدت کے بعدانتخابات کے تحت ایڈمنسٹریشن کے سیکریٹری کو منتخب کیا جاتا ہے، جو قبرستان کی دیکھ بھال کیلئے چرچ آف پاکستان کے نمائندے کا کام کرتا ہے ۔
گورا قبرستان چرچ آف پاکستان اور رومن کیتھولک کے ماتحت کام کرتا ہے، لیکن قبرستان میں عیسائیوں کے دونوں فرقوں کے لوگ دفن ہیں۔ عیسائیت میں فرقوں کی کوئی تکرار نہیں ہے ،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قبرستان میں پروٹیسٹنٹ اور رومن کیتھولک فرقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دفن ہیں جبکہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے ممبران بھی دونوں فرقوں سے لئے جاتے ہیں۔ سنہ 2005 میں پولینڈ کے قونصل خانے، نے اپنے 58 افراد کی آخری یادگار کو باقاعدہ سنگ مرمر کی مدد سے تعمیر کرایا اور اس پر واقعے سے متعلق تفصیلات کندہ کرائی۔ گورنر جزل پاکستاں ملک غلام محمد کراچی کے گورا قبرستان کراچی کے عقب میں فوجی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
قبرستان میں انگریزوں کے زمانے میں کراچی کے کلکٹر سر ہینری اسٹیولی لارینس کی بیوی ” فلس لوئس لارینس “ کی قبر بھی یہیں موجود ہے۔ فلس لوئس کی قبر پر 30 جولائی1912ء کی تاریخ درج ہے جبکہ قبر کے لئے مغل دور کی طرز تعمیرپر الگ کوٹھڑی بنائی گئی ہے۔فلس لوئس کے3 بچے تھے اور ان کی موت ایک روڈ حادثے میں ہوئی تھی۔ ان کے شوہر ہینری اسٹیولی سے انہیں بہت محبت تھی، جس وجہ سے انہوں نے بیوی کی یاد میں قبرستان کے کونے میں الگ کوٹھی بنوائی، جو اس وقت رہائشی آبادی کے گھیرے میں آچکی ہے،کوٹھڑی کے دائیں، بائیں اور سامنے والی طرف سے مسلم آبادی کے گھر بن چکے ہیں جبکہ فارغ اوقات میں آبادی کے بچے وہاں کرکٹ بھی کھیلنے آیا کرتے ہیں۔
قبرستان کے پیچھے بڑھتی ہوئی رہائشی آبادی نے قبرستان کے ایک حصے کو کوڑا کرکٹ پھینکنے والی جگہ کے طور پر استعمال کر رکھا ہے۔ قبرستان انتظامیہ کی جانب سے بار بار کہنے کے باوجود رہائشی آبادی نے کچرہ پھینکنے کے سلسلے کو ختم نہیں کیا بلکہ الٹا قبرستان انتظامیہ کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔قبرستان کے دائیں جانب رہائشی آبادی قبرستان کی چاردیواری کے اندر آباد ہوچکی ہے، جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے برسوں میں رہائشی آبادی مزید بڑھ کر اندر قبرستان میں آباد ہوجائے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...