کئی سال قبل میں گاندھی گارڈن { اب زولوجیکل گارڈن} اورپاکستان کواٹرکےنکڑ پر جو سڑک لیاری ندی کے طرف جاتی تھی وہاں مشہور اسحاق بھائی کی پان کی دوکان ہوتی تھی اس دوکان پر شام کو ہم دوستوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ وہاں سرے شام وہاں اداکارحنیف آتے تھے اور ایسٹرن فلم اسٹوڈیو جاتے ہوئے اپنے دوستوں کے لیے پان خریدتے اور خود بھی بھی سوئف، خوشبو الائچی والا پان کھاتے تھے۔ اس زمانے میں پورے کراچی میں ان کی چھوٹی سی اسپوٹس کار بہت مشہور تھی۔ اس کار کا آدھا رنگ سفید اور سرخ تھا۔ اور اس کار کی ڑگی پر ایک سفید رنگ کے پلاسٹک کے غلاف میں ایکسٹرا ٹاَٹئر {پہیہ} ہوتا تھا۔ یہ بہت خوبصورت کار تھی۔ یہ کارحنیف نے اداکار کمال سے خریدی تھی۔ اس زمانے میں حنیف کراچی میں" ہوتی مارکیٹ" کے قریب مارواڈیون کے محلے میں رہا کرتے تھے۔ یہی حنیف کی سائیکلوں کی دوکان بھی تھی۔ جہاں پر چار آنے گھنٹے کے کرائے پر سائیکل مل جاتی تھی۔ حنیف اردو کے علاوہ مارواڈی، میمنی ، گجراتی زبان بڑی روانی سے بولتے تھے۔ اور بہت خوش پوشاک تھے۔ بہتریں جوتے پہنتے تھے۔ ان کر نیلا سوٹ بہت جچتا تھا۔ اور ان کے ہیراسٹائیل کا جواب ہی نہیں۔ جو دلیپ کمار سے ملتا جلتا تحا۔
حنیف ایک خوبرو اداکار تھے۔ان کو پاکستانی" دلیپ کمار" کہا جاتا تھا۔ ان کا ہیر اسٹائیل بھی منفرد تھا۔ حنیف کا سب سے پہلے فلمساز اے حمید نے اپنی فلم " ہمیں جینے دو "میں پہلی بار انکو ہیرو کے لیے منتخب کیا۔۔ مگر یہ فلم بری طرح ناکام ہوئی۔ مگر اس فلم کا گانا ۔۔۔ " الہی آنسو بھری زندگی کسی کو نہ دے"۔۔۔ حنیف کی دوسری فلم " میخانہ" تھی ۔ جو نخشب نے بنائی تھی۔ اس فلم کی کہانی رئیس امروہوی نے لکھی تھی۔ "میخانہ" میں حنیف نے ایک شرابی کا سپوٹنگ کردار ادا کیا تھا۔ حنیف کی تیسری فلم " آرزو" تھی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ ترنم بحیثت ہیرویں جلوہ گر ہوئی تھی۔ یہ ایک اوسط درجے کی فلم تھی۔ اس فلم کا ایک گانا ۔۔۔۔۔"میں تو سمجھا تھا جدائی تیری ممکن ہی نہیں، موت بھی آئی تو شانوں پر تیرے آئے گی" ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۱۹۶۵ کی پاک وہند کی جنگ کے موضوع پر ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں بنے والی فلم " آزادی یا موت" میں ہیرو آئے۔ یہ فلم ۲۶ جنوری ۱۹۶۶ میں ریلیز ہوئی۔ میں نے اس کا پہلا شو کراچی کے پلازا سینما میں دیکھا تھا۔۔ اسی زمانے میں ان کی دو فلمیں " میرے لال" اور "مثال" بھی آئیں جو کامیاب نہ ہو سکیں۔ وحید مراد نے ان کو اپنی فلم " سمندر" میں ان کو سائڈ رول دیا۔ اس کے بعد ان کی فلمیں ۔۔ " منزل دور نہیں"، " دو بھائی،" چاند سورج"، چھوٹے نواب"، "راجہ کی آئے گی بارات"،"بانو رانی" اور " گنوار" ہیں۔ ان کی سب سے زیادہ کامیاب فلم " آئینہ " تھی جس کے ہیرو ندیم تھے۔ ان کی ایک فلم " قربانی" تھی جو ۲۲ جولائی ۱۹۸۱ میں ریلیز ہوئی۔ ان کی ایک فلم" مرزا محل" تھی جس میں شبانہ ہیرو ین تھی۔ اس فلم کے ہیرو حنیف تھے۔ ۱۹۷۱ کی جنگ کے سبب نہیں بن سکی کیونکہ فلم کی ہیروین شبانہ بنگلہ دیش چلی گئی تھی۔ ان کی آخری فلم " مقدمہ" تھی جو ۱۹۸۸ میں سینماوں میں لگی تھی۔ حنیف نے 173 فلموں میں کام کیا۔ مگر وہ زیادہ کامیاب اداکار ثابت نہیں ہوئے۔ حنیف نے زیادہ تر فلموں میں معاون اور چھوٹے موٹے کردار ادا کئے۔ ان کی ناکامی کی ایک وجہ ان کی اداکاری کے ساتھ مکالموں کی کمزور ادائیگی تھی۔ ان کی ناکامی کی دوسری وجہ دوسری وجہ ان کا کراچی سے رومانس تھا۔ وہ اداکاری کرنے لاہور گئے۔ مگر ان کا وہاں دل نہ لگتا تھا۔ اور انھیں لاہور میں ان کا اچھے بھی ہدایت کار نہیں ملے۔ اور ان کو وہاں نظر انداز بھی کیا گیا۔ حنیف نے آخری زمانے میں ٹیلی وژن میں قسمت آزمائی مگر وہاں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ حنیف کا انتقال دو/۲ جولائی ۱۹۹۰ کو کراچی میں ہوا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...