اگر یہ سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا!
کراچی کی طرح سنگاپور میں بھی کئی زبانیں بولنے والے اور کئی قومیتیں رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ انگریزوں نے 1819ء میں جب یہاں تجارتی چوکی قائم کی تو سنگاپور کی آبادی نو سو دس افراد پر مشتمل تھی جس میں سے 880 ملایا کے باشندے اور تیس چینی تھے۔ 2009ء کے اعداد و شمار کیمطابق موجودہ آبادی 45 لاکھ ہے جس میں 74 فی صد چینی، ساڑھے تیرہ فیصد ملائی اور تقریباً 9 فی صد انڈین ہیں۔ سنگاپور کی نسلی ہم آہنگی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ گھروں کے کسی بلاک میں کسی ایک قومیت کی اجارہ داری نہیں ہو گی۔ فرض کریں ایک بلاک میں ایک سو گھر یا فلیٹ ہیں تو اس میں چینیوں، ملائے اور انڈین کی تعداد متعین ہو گی جب یہ تعداد پوری ہو جائیگی تو کسی صورت اس قومیت کے لوگوں کو اس بلاک میں گھر نہیں دئیے جائینگے۔ اسکا فائدہ یہ ہے کہ پورے سنگاپور میں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ فلاں محلہ انڈیا کا ہے اور فلاں جگہ صرف چینی رہتے ہیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی نسلی یا مذہبی بنیادوں پر اپنے ووٹروں کا استحصال نہیں کر سکتی، اسے کامیابی حاصل کرنے کیلئے ایسا پروگرام دینا ہو گا جو چینی بُدھ، ملائی مسلمان اور تامل ہندو‘ سب کیلئے قابل قبول ہو.
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان قومیتوں کی انفرادیت مجروح ہو رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اگر انگریزی زبان لازمی اور ’’اول زبان‘‘ ہے تو ہر قومیت کے بچے اپنی مادری زبان کو ’’ثانوی زبان‘‘ کے طور پر پڑھنے کے پابند ہیں۔
آپ کے ذہن میں یقیناً یہ سوال اٹھ رہا ہو گا کہ اگر چینی آبادی 74 فی صد ہے تو یہ تو چینیوں کا ملک ہوا لیکن یہی وہ نکتہ ہے جس پر آپ نے کراچی کو ذہن میں رکھ کر غور کرنا ہے۔ سنگاپور کی حکومت نے ہر قومیت کو یہ باور کرا دیا ہے کہ آپکا بچہ انگریزی کیساتھ ساتھ اپنی مادری زبان سیکھے گا اور اپنے گھر میں جو چاہے کریگا لیکن گھر سے باہر وہ چینی ہو گا نہ انڈین نہ ملائی اور نہ کچھ اور … وہ صرف اور صرف سنگاپوری ہو گا۔ جدید سنگاپور کے معمار ’’لی کوان پیو‘‘ نے ایسے سکول قائم کئے جن میں چینیوں کو یہ تربیت دی گئی کہ اب وہ چینی نہیں بلکہ سنگاپوری ہیں۔ خود لی نے اپنے بچوں کو انہی سکولوں میں تعلیم دلوائی۔ سنگاپوری ہونے کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ سنگاپور میں بولی جانے والی انگریزی زبان کو انگلش کے بجائے سنگلش کہا جانے لگا ہے۔
ان ساری پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ سنگاپور کے تمام لسانی اور نسلی گروہوں میں مفاہمت بھی ہے اور رفاقتِ کار بھی۔ مفاہمت کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ پچھلے دس سال سے ایک انڈین (تامل) سنگاپور کی صدارت کے عہدے پر فائز ہے حالانکہ کُل آبادی میں انڈین صرف 9 فی صد ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے سنگاپور دنیا کے اُن دس ملکوں میں شمار ہو رہا ہے جو کرپشن سے پاک ہیں۔ رشوت، اقربا پروری، سفارش اور انتخابات میں دھاندلی کا تصور تک مفقود ہے۔ مسجدیں بھی ہیں، گرجا بھی اور مندر بھی، بُدھ مت کے پیروکار بھی بس رہے ہیں اور وہ بھی جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ کوئی کسی کو ختم نہیں کرنا چاہتا، نہ مذہب، زبان یا نسل کی بنیاد پر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ اگر سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم کراچی کو اس آگ سے نجات دلانا چاہتے ہیں جس کے شعلے آسمان کو چُھو رہے ہیں؟
اگر ہم سنگاپور کا ماڈل اپنے سامنے رکھیں تو ہمیں ہر قیمت پر مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہونگے :
اول ۔ ہمیں ان آبادیوں سے جان چھڑانا ہو گی جو لسانی حوالوں سے بنائی گئیں یا بن گئیں۔ آخر کوئی ایسی آبادی کیوں ہو جس میں صرف اردو، صرف سندھی یا صرف پشتو بولنے والے رہتے ہوں۔ ہمارے خونریز ماضی کے پیش نظر ہمیں کسی کو ایسا موقع ہی نہیں دینا چاہیے کہ وہ لسانی بنیاد پر کسی آبادی کو نشانہ بنائے۔ کراچی کی شہری حکومت (سٹی گورنمنٹ) کو ایسا قانون بنانا ہو گا جسکی رُو سے ہر نیا بلاک یا پلازا بنانے والا مختلف لسانی اکائیوں کے حساب سے گھر بیچے۔ پرانے کراچی کی عمارتیں جلد یا بدیر نئی عمارتوں میں ڈھلیں گی۔ بند روڈ، کھارادر، برنس روڈ، ریگل اور بے شمار دوسرے علاقوں کی عمارتیں بوسیدگی کا شکار ہو کر گرنے کی منتظر ہیں۔ یہاں نئے بلاک، نئی اپارٹمنٹ بلڈنگیں اور نئے پلازے تعمیر ہونگے۔ کراچی شمال کی طرف بھی پھیل رہا ہے۔ یہ پابندی ہر نئی تعمیر پر عائد کی جائے، رہیں وہ آبادیاں جو پہلے سے بسی ہوئی ہیں تو انکے مکینوں کو نئی آبادیوں میں نئے فلیٹ خریدنے کیلئے مالی ترغیب دینا ہو گی۔مثلاَ َ َ اگرنئے گھر کی آدھی قیمت حکومت ادا کرے تو لسانی گوشوں میں مقیّد لوگ ویاں سے نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے پر آمادہ ہو جاَئیں گے۔اگر دس سال میں پندری بیس ارب روپے اس ترغیب پر خرچ ہو جائیں اور نئی آبادیاں لسانی ہم آہنگی سے ہم کنار ہو جائیں تو سودا مہنگا نہیں۔
دوم ۔ ہر لسانی اکائی کو یہ حق حاصل ہو کہ اسکے بچے لازمی اردو کے بعد اپنی مادری زبان ’’دوسری زبان‘‘ کے طور پر پڑھیں اس کیلئے وسائل اور اساتذہ مہیا کرنا حکومت کا فرض ہو گا۔ کراچی میں بسنے والے ہر شہری کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ اپنے گھر سے باہر صرف کراچی کا شہری ہے اور صرف پاکستانی ہے۔ وہ دہلی سے آیا ہے یا حیدر آباد دکن سے یا سکھر سے یا ایبٹ آباد سے یا مردان سے، وہ جہاں سے بھی آیا ہے، یہ اس کا ماضی ہے۔ اب وہ کراچی کا ہے اور صرف کراچی کی ترقی اور کراچی کا امن اسے عزیز ہونا چاہیے‘ اس کیلئے ثقافتی، تعلیمی، اطلاعاتی، سماجی سارے میدانوں میں جدوجہد کرنا ہو گی۔
سوم۔ایسی سیاسی جماعتیں جو لسانی یا مذیبی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں، پیش منظر سے ہٹانا ہوں گی۔آخر عوامی نیشنل پارٹی میں صرف پٹھان کیوں ہوں ؟ اور ایم کیو ایم میں سرف اردو بولنے والے کیوں ہوں؟ اگر ان جماعتوں کے اپنے ذہن اس قدر چھوٹے ہیں کہ تنگ دائرے سے نہیں نکل سکتے تو حکومت اپنا کردار ادا کرے اور ایسا قانون بنائے جس کی رو سے کوئی سیاسی پارٹی کسی مخصوص لسانی یا مذہبی گروہ تک محدود نہ رہے۔
یہاں ملائیشیا کا حوالہ دینا نامناسب نہ ہو گا۔ 1969ء میں وہاں ہولناک نسلی فسادات برپا ہوئے۔ اسکے بعد جو پالیسیاں وجود میں لائی گئیں ان میں مختلف اکائیوں کے درمیان شادیاں بھی تھیں یعنی اگر ایک گروہ کا فرد دوسرے گروہ میں شادی کرتا ہے یا کرتی ہے تو حکومت اسکے اخراجات کا ایک حصہ ترغیب کے طور پر ادا کرتی ہے۔ پاکستان بھی اس کی تقلید کر سکتا ہے لیکن اصل سوال پھر بھی یہی ہے کہ کیا کراچی کے رہنما اور عوام کو مختلف سمتوں میں ہانکنے والے گڈریے خلوص دل سے کراچی میں برپا قتل و غارت ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر یہ سب کچھ اگر سنگاپور میں ہو سکتا ہے تو کراچی میں کیوں نہیں ہو سکتا؟