ھارر فلموں جیسا سین
یہ مسیحیوں کا قبرستان ہے
زرا سوچئے اس کے ساتھ لگی آبادی کی دیواروں میں موجود کھڑکیوں سے اندھیری رات یا چاندنی راتوں میں قبرستان کا نظارہ کیسا لگتا ہوگا؟ یا جن کے کچنز اور واش رومز کی کھڑکیاں قبرستان کی طرف کھلتی ہونگی ان کے لئے رات میں یہ نظارہ کیسا ہوتا ہوگا۔ یا جن کے بیڈ رومز کی کھڑکیاں بالکل ان قبروں کے ساتھ لگی ہونگی وہ رات میں کیسے سوتے ہونگے؟ رہائش گاہوں کی دیواروں کے ساتھ لگے قبرستان کا یہ حصہ قدیم ترین ہے جہاں 1885 اور اس کے بعد کے فوت شدہ انگریزوں کی قبریں ہیں۔ کیا یہ ایک ھارر مووی جیسا سین نہیں ہے۔
لگ بھگ پچیس ایکڑ پر پھیلے اس تاریخی قبرستان کی بنیاد 1850ء سے پہلے انگریزوں کے دور میں رکھی گئی، جس وجہ سے اسے گورا قبرستان کہا جاتا ہے
یہاں پہلی قبر لیفٹننٹ کرنل جونیپئیر بیرکس کی جواں سالہ بیٹی کی تھی 1843ء میں جب ایچ ایم 28رجمنٹ کے ایک لیفٹننٹ کرنل جونیپیئر بیرکس کے علاقے میں رہائش پذیرتھے، ان کی جواں سال بیٹی نے وفات پائی تو اسے بزرٹا لائن اور عائشہ باوانی اسکول سے متصل ایک میدان کے اندردفنایا گیا،
اس وقت قبرستان میں سب سے پرانی قبر 1885 کی موجود ہے۔ جنگ آزادی سے قبل جب برطانیہ نے کراچی میں اپنا تسلط قائم کیا تو اپنے فوجی افسران اور جوانوں کی رہائش کے لیے بیرکس اور لائنز بنادیں جو جیکب لائن، ٹیونیشیا لائن، بزرٹا لائن، اے بی سینیا لائن ، نیپیئر بیرکس کے نام سے مشہور ہوئیں۔
اس کا قدیم حصہ شاہراہ فیصل پر بنے ہوئے مرکزی گیٹ سے داخل ہونے کے بعد دائیں ہاتھ پر واقع ہے، جہاں چٹانی پتھروں سے چوکنڈی طرز کی تقریباً پونے دو سو سال پرانی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ ایک قبر پر پتھر کی ایک سلیب پر انگریزی حروف میں کندہ ہے، ’’ ماریا کاٹن کی یاد میں ، جو لیفٹننٹ کرنل کاٹن کی پیاری بیٹی تھی ۔قبرستان میں1887 اور 1891 کی قبریں بھی زبوں حالت میں موجود ہیں، جن پر اس زمانے کے قیمتی پتھر پر سال اور تاریخیں درج ہیں۔
جنگ عظیم دوم کے دوران جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا تو سنہ 1942ء سے 1945ء کی درمیانی مدت میں پولینڈ کے تقریباً 30 ہزار شہریوں نے کراچی میں پناہ لی تھی۔ انہیں کنٹری کلب اور ملیر میں بنائے گئے عارضی کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔ پناہ گزینی کے دوران 58پولینڈشہری انتقال کر گئے جو اسی قبرستان میں مدفن ہیں یہ نوآبادیاتی دور کی قبریں ہیں۔2005 میں پولینڈ کے قونصل خانے، نے اپنے 58 افراد کی آخری یادگار کو باقاعدہ سنگ مرمر کی مدد سے تعمیر کرایا اور اس پر واقعے سے متعلق تفصیلات کندہ کرائی۔
ذرائع کے مطابق1930 قبریں ہیں ،جن میں 3 لاکھ کے قریب لوگ دفن ہیں۔ یہ بات یقیناً چونکا دینے والی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ گورا قبرستان کی ایک قبر میں3 سے 4 آدمی دفن ہیں، جگہ کی کمی اور مجبوری کے باعث گورکنوں نے بڑی مہارت سے ایک قبر میں ایک سے زائد لوگ دفنا ئے ہیں
قبرستان میں برطانوی راج میں کراچی کے کلیکٹر سر ہینری اسٹیولی لارینس کی بیوی ” فلس لوئس لارینس “ کی قبر بھی موجود ہے۔فلس لوئس کی قبر پر 30 جولائی1912ء کی تاریخ درج ہے، جبکہ قبر مغل دور کی طرز تعمیرپر بنائی گئی ۔ ان کے شوہر ہینری اسٹیولی سے انہیں بہت محبت تھی، جس وجہ سے انہوں نے بیوی کی یاد میں قبرستان کے کونے میں الگ کوٹھی بنوائی، جو اس وقت رہائشی آبادی کے گھیرے میں آچکی ہے،کوٹھی کے دائیں، بائیں اور سامنے والی طرف سے مسلم آبادی کے گھر بن چکے ہیں۔
تاریخی لحاظ سے قبرستان کی عمرتقریباََ 170 سال ہوگئی ہے، لیکن عجب اتفاق ہے کہ اسے آثار قدیمہ نے ابھی تک تاریخی ورثہ قرار نہیں دیا ہے تو اس کا تذکرہ زیادہ واضح نہیں نہ ہی مناسب انداز میں قدیم قبروں کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبریں انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جبکہ بہت ساری قبروں کے تو آثار بھی مادوم ہوگئے ہیں۔بارش کے دنوں میں یہاں پانی کئی کئی فٹ کھڑا ہو جاتا ہے اور اسی پانی کے سبب قبروں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔یہاںایشیا کی بلند ترین صلیب تعمیر کی جارہی ہے جو 140فٹ اونچی اوراس کی بنیاد 20 فٹ گہری کھودی گئی ہے۔
آبادی کے بڑھنے کے ساتھ بیشتر خاندان نے قبرستان سےملحقہ علاقوں میںرہائش پذیر ہوگئے۔ قبرستان کی جنوبی دیوار کے ساتھ واقع بزرٹا لائن میں رہنے والوں نے اے بی سینیا لائن اور کورنگی روڈ کی طرف جانے کے لیے قبرستان میں سے گزرگاہ بنالی۔ دیواریں مسمار کردی گئیں، لہلہاتے درخت کاٹ دیئے گئے، سبزہ اور پیڑ پودے ختم کردیئے گئے ہیں۔ قبرستان کے پیچھے بڑھتی ہوئی رہائشی آبادی نے قبرستان کے ایک حصے کو کوڑا کرکٹ پھینکنے والی جگہ کے طور پر استعمال کر رکھا ہے۔ قبرستان انتظامیہ کی جانب سے بار بار کہنے کے باوجود رہائشی آبادی نے کچرہ پھینکنے کے سلسلے کو ختم نہیں کیا ۔پہلےاس قبرستاں کا انتظام کا دیکھ کر رشک آتا تھا۔ یہ بہت صاف ستھرا قبرستان ہوتا تھا۔
قبرستان کی حال ہی میں بننے والی قبروں کی تعمیر میں امیر اورغریب کی تفریق نمایاں نظر آتی ہے۔یہاں تین مختلف طرز کی قبریں بنی ہوئی ہیں، کالے پتھروں، سفید سنگ مرمر کے علاوہ کچی قبریں بھی ہیں۔
کراچی کا پرانا گورا قبرستاں
یہ تو کراچی کاوہ گورا قبرستان ہے جو شاہراہ فیصل پر واقع ہے لیکن گوروں کا ایک قبرستان 1740 ء میں بندرروڈ پر ریڈیو پاکستان کے سامنے بھی بنایا گیا تھاجو قصہ پارینہ ہوگیا ہے اور اس کی جگہ ایک رہائشی پلازہ بنادیا گیا ہے۔ اس میں سب سے پہلےگرینڈئیر رجمنٹ کے کیپٹن ہینڈرز کو دفن کیا گیا جوکراچی میں تعیناتی کے بعد علاقے کی سیر کے لیے نکلا تھا کہ منگھوپیر کے علاقے میں اسے قتل کردیا گیا تھا۔ مذکورہ قبرستان دس ایکڑ کے رقبے پر قائم گیا تھا اور اس کی حدود ایم اے جناح روڈ سے چونا بھٹی کے پاس واقع پارک تک پھیلی ہوئی تھیں ، اس میں تقریباً دو ہزار کے قریب قبریں تھیں جو سب گوروں کی تھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعددیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ قبرستان کا وجود ختم ہوتا گیا اور یہاں صرف چند قبریں ہی باقی بچیں۔ قریبی علاقوں میں رہنے والے بچے اسے کھیل کامیدان سمجھ کر کھیلا کرتے تھے۔ لیکن 1978 ء میں اس میدان اور قبرستان کی جگہ ایک کاروباری شخصیت کو الاٹ کردی گئی جس نے اس جگہ ایک تجارتی و رہائشی عمارت تعمیر کرلی۔ آج کراچی کا’’ پہلا گورا قبرستان ‘‘تاریخ کے گمشدہ اوراق کا حصہ بن چکا ہے۔
کیا آپ یقین کریں گے کہ یہ پرانا قبرستان کہاں واقع تھا؟
ایم اے جناح روڈ پر جس عمارت میں دلپسند سوئیٹس کی شاپ ہے وہ عمارت اور سے متصل اس کےعقب کا تمام علاقہ پرانا گورا قبرستان تھا اور ان عمارات کے نیچے نہ تین سو سال پرانے نہ جانےکتنے گورے دفن ہونگے۔
حبیب احمد
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...