"کراچی گردی"
کہانی ہے اس شام کی جب آوارگی کی آرزو ہوئی اور ہم صدر کا ارادہ لیکر روانہ ہوئے۔
کورنگی سے صدر کو جاتی مشرق بس پہ سوار ہوئے۔ اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں یا رہے تھے تو تو خان، آفریدی، مشرق، بلال وغیرہ کی اصطلاحات آپ کیلئے نامانوس نہ ہونگی۔ لیکن اگر آپ کراچی سے باہر رہتے ہیں یا پھر وہ دو فیصد والی آبادیوں یعنی ڈیفنس اور بحریہ وغیرہ میں بستے ہیں تو سنئے کہ یہ نام بسوں کے ہیں جو انسان برداری کے کام آتی ہیں۔ اور مخلوق خدا کو کُو بکو پھراتی پھرتی ہیں۔
ایسی ہی ایک بس میں جب ہم سوار ہو رہے تھے تو اندازاً شام پانچ بجے کا عمل تھا۔ اور یہ وہ وقت تھا جو آس پاس پھیلے صنعتی کارخانوں کی چھٹی کا وقت تھا۔ اور ہم خاص طور پر ان خواتین کارکنوں کے ہجوم کا مشاہدہ کرتے تھے جو چھٹی کر کے گھروں کو روانہ ہورہی تھیں، بھلا ہو عمیرہ احمد کے "من و سلوی"ٰ کا جس نے ہمارے ذہن میں ملازمت کرتی خواتین کی عظمت اب بھی قائم کر رکھی ہے ۔ یہ منظر پاکستان میں گنی چنی جگہوں پہ ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ ورنہ پاکستان میں مزدور کا عنوان عام طور پر مردوں سے سے ہی وابستہ ہوا کرتا ہے۔
بسکٹوں کے کارخانے سے آتی بسکٹوں کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی اور پر لطف احساس دیتی چلی گئی۔ یہ کورنگی انڈسٹریل ایریا تھا، یہاں سے نکلنے کے بعد ڈیفنس کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ راستے میں طوبی مسجد کا بورڈ نظر آتا ہے، جو ایک قابل دید مسجد ہے اور اپنی بلا ستون خوبصورت تعمیر کی وجہ سے شہرت کی حامل ہے۔ اس سے آگے
گورا قبرستان اور اسکے بالمقابل مصنوعی چوٹی پر واقع خوشنما فاران مسجد آتی ہے۔
اس راستے سے جب آپ سفر کر رہے ہوں تو صدر کے آغاز میں سیستانی" چلو کباب نامی ہوٹل آتا ہے جو کھانے کیلئے ایک اچھی پسند ثابت ہو سکتی ہے۔ ویسے تو صدر کھانے پینے کے معاملے میں کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہے لیکن یہاں بہت ساری جگہوں کی کھانے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک تاریخی حیثیت بھی وابستہ ہے۔
چونکہ چودہ اگست سے متصل ماقبل شام تھی اسلئے کراچی والوں کا جوشِ جشن آزادی بھی عروج پر تھا۔ جگہ جگہ چمچماتی جھنڈیاں، لہلہاتے جھنڈے اور پاکستانیت نمایاں کرتے بیج اور شرٹیں سٹالوں پر سجی تھیں۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، ہم نے البتہ آگے جانا تھا سو صدر اتر کے لائٹ ہاؤس جانے کیلئے دوسری بس میں سوار ہوئے اور کوئی دس بارہ منٹ بعد ساتھ بیٹھے شخص سے تصدیق کروا کر کہ لائٹ ہاؤس آگیا ہے، نیچے اتر آئے۔ اہل کراچی کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ راستہ بتانے کے معاملے میں دیانت دار واقع ہوئے ہیں۔
یہاں ایک بوتل والی گلی ہے جو سالوں پہلے بوتلیں بیچنے خریدنے کیلئے مشہور ہوا کرتی تھی جہاں نادر ونایاب بوتلیں، خوشنما سجاوٹی بوتلیں اور شراب کی بوتلیں بھی دستیاب ہوا کرتی تھیں۔ مگر آج کل اس کی زیادہ شہرت عطر اور پرفیوم کی خرید وفروخت کے حوالے سے ہے۔
یہاں سے خوشبوؤں کی خریداری کے بعد جوتوں والی مارکیٹ میں گھسے اور غالباً کوئی دو گھنٹے گھسے رہنے کے بعد ایک عدد جوتا منتخب کرکے خریدا گیا۔ ابھی رات کے نو سوا نو بجے کا عمل ہو رہا تھا مگر اب یہ مارکیٹ بند ہونے لگی تھی۔ اور یوں یہ کراچی کی جاگتی راتوں کی شہرت پہ کو داغدار کر رہی تھی۔
واپس صدر کی طرف روانہ ہوئے اب ارادہ تھا کہ واپس چلیں۔ مگر جب صدر سے کورنگی جانے والی بس تلاش کر رہے تھے تو ہمیں خیال آیا کہ سامنے موبائل کے ساز و سامان کی دکانیں ہیں، ذرا مائیک اور ہینڈفری دیکھتے چلیں۔ دراصل ہم اس زمانے اور نسل میں جیتے ہیں کہ موبائل فون جن کے وجود کا ناقابلِ علیحدگی حصہ ہے۔
تو ایک بار پھر گھومتے گھماتے ریمبو ٹاور میں ہم ایک دکان پر پہنچے اور یہ دکان تھی موبائل کے ہول سیل ساز و سامان کی۔ خوبی یہ تھی کہ ایک آدھ کے عدد پر بھی ہول سیل قیمتوں ہی کا اطلاق ہوتا تھا۔ دکاندار نے ہمارے مطلوبہ کوائف کے مطابق ایک ہیڈفون دکھایا، اسکی قیمت بمطابق پاکستانی کرنسی مبلغ ساڑھے نو سو روپے بتائی۔ ہم جو پچاس روپے کی ہینڈ فری پہ قانع ہوا کرتے تھے۔ ہیڈ فون کانوں پر جمایا اور اس کی ساؤنڈ کوالٹی ایسی کہ بھئی لونڈا پگھل گیا۔ اب ہیڈ فون لیکر واپسی کی راہ لینے کی غرض سے مڑے۔
کھانے کیلئے ایک جگہ سے بن کباب لیا گیا۔ اپنی بد ذائقگی کی وجہ سے وہ بن کبابوں کا طاہر اینجل کہلائے جانے کے قابل تھا۔ زرا چلنے کے بعد ایک اور بن کباب والے پر نظر پڑی اور گوہر شناس نظروں نے پہچان لیا کہ یہ ہے اصل بن کباب۔ اور پھر واقعی اس نے بھروسہ ٹوٹنے نہ دیا۔
واپسی کیلئے بس پہ سوار ہوئے مگر اب ہمارے اوپر بس کی نہیں تیز نیلے آسمان کی چھت تھی کیونکہ بس کی چھت پر جو بیٹھے ہوئے تھے، لیجئے لندن گئے بغیر ڈبل ڈیکر کے مزے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم نے جو خدا کا نام لیکر شامِ آوارگی شروع کی تھی اب اس کا اختتام ہوتا تھا مگر اتنا چلنے کے بعد بھی ہمارے وزن میں ایک پاؤ اضافہ ہوچکا تھا اور یہ اس گرد کا تھا جو ہم پہ کراچی کی فضاء نے جما ڈالی تھی۔
ہمارے کمرے میں ایک افغانی دوست قہوہ بناتا ہے اور دن کا اختتام ہوتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔