(Last Updated On: )
80 کی دہائی کے ابتدائی سالوں کی بات ہے میرا ایک پرانا دفتری ساتھی افضل مجھ سے ملنے گھر پر آیا، وہ خاصا گهبرايا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا خیریت ہے؟ فوراََ بولا نہیں یار بڑی مشکل میں ہوں، چھوٹا بھائی “کسٹم کے حوالات” میں بند ہے۔ تمہاری مدد درکار ہے۔ میں بھی پریشان ہو گیا۔ میں نے کہا افضل میں نے خود “کسٹم کے حوالات” کا نام پہلی دفعہ سنا ہے۔ میں تمہاری کس طرح مدد کر سکتا ہوں۔ کہنے لگا یار تمہارا امپورٹ کا بزنس ہے۔ کسٹم والوں سے تمہارا واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے۔ اس کی یہ بات درست تھی۔ ویسے تو ہمارے امپورٹ کے کنساینمنٹ کی کلئیرنس ہمارا كسٹم ایجنٹ کروایا کرتا تھا۔ لیکن جب کبھی کسٹم حکام کوئی اعتراض لگا دیتے تھے تو اس کی وضاحت کے لیے مجھے كسٹم ہاؤس جانا پڑتا تھا۔ میں نے افضل سے پوچھا کہ تمہارا بھائی کسی قسم کی اسمگلنگ میں تو ملوث نہیں ہے؟ کہنے لگا نہیں یار میرا بھائی اپنی کمپنی کی طرف سے ایک ہفتے کی ٹریننگ پر سنگاپور گیا تھا۔ وہاں بازار میں اس نے ایک چھوٹی سی مشین دیکھی، وہ اس نے خرید لی۔ اس مشین میں کاغذ پر لکھ کر ڈالو تو وہ کاغذ بالکل ویسے ہی دنیا میں کسی بھی جگہ چلا جاتا ہے جہاں ایسی مشین موجود ہو۔ یعنی یہ مشین کسی بھی دستاویز یا کسی بھی شبیہہ کی نقل بمطابق اصل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیتی ہے۔
اس کا نام Fax ہے۔ میرے لیے بھی یہ حیران کن بات تھی۔ میں نے بھی اس قسم کی مشین کا ذکر پہلی دفعہ سنا تھا۔ میرے دیس میں ہر مسئلے کا حل پیسہ اور تعلقات ہی ہیں۔ دونوں کا استعمال کرتے ہوئے افضل کا بھائی
“کسٹم کے حوالات” سے رہا کروا لیا گیا لیکن وہ جس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اس کا نام ہے “پاکستان وائرلیس اینڈ ٹیلی گرافی ایکٹ مجریہ 1933″۔ یعنی پچاس سال پرانا قانون۔ اس دوران ٹیلی کمیونیکیشن کے میدان میں ایک انقلاب برپا ہو چکا۔ بجاۓ اس کے دنیا کے نئے حالات و واقعات کے مطابق اپنے قانون کو تبدیل کیا جاتا۔ فرسودہ قانون کا سہارا لے کر بے گناہ انسانوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا اور حکومتی سطح پر ایک طریقے سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندی لگائی جا رہی تھی۔
ٹیلی مواصلات کی دنیا اس تیزی سے بدل رہی ہے کہ فیكس مشین کا استعمال 80 کی دہائی میں شروع ہوا اور یہ مشین 90 کی دہائی میں متروک قرار پائی اور ہم ہیں کہ 1933 میں ہی پهنسے ہوئے ہیں۔ ہم نے شائد ہر نئی ایجاد کو خوشی سے تسلیم نہ کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے اور ہمیں ہر نئی ایجاد میں يہود اور ہنود کی سازش نظر آتی ہے۔ فیكس تو خیر ایک تجارت میں استعمال ہونے والی مشین تھی۔ اس لیے اس کی پاکستان میں درآمد روکنے یا bann لگانے کے لئے کسی قسم کا اخلاقی یا ثقافتی یا سیاسی الزام تو لگایا نہیں جا سکتا تھا لیکن حکومتی سطح پر جس طرح 70 کی دہائی میں وی سی آر کی درآمد روکنے اور ملک میں اس کےاستعمال پر bann لگانے کے لئے جس طرح بھونڈی اور مضحکہ خیز تاویلیں پیش کی گئیں، آج وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں وی سی آر رکھنے والے اور وی سی آر کے ذریعے فلم دیکھنے والے گرفتار کر لیے جاتے تھے جبکہ عالمی حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی ایجاد وی سی آر نے تمام دنیا کے فلم بینوں میں بہت جلد مقبولیت پائی تھی۔ اس کے باعث فلم بین اپنی پسند، مرضی، سہولت اور وقت کے لحاظ سے فلم دیکھنے کی سستی سہولت حاصل کر پائے تھے۔ بلکہ اس سے ایک قدم بڑھتے ہوئے عام شائقین اپنی خاندانی تقریبات کی فلم بندی کے بعد محفوظ کروا لیا کرتے تھے اور ان یادگار لمحات سے بار بار اور کئی سالوں بعد بھی ماضی کے لمحات سے لطف و اندوز ہوا کرتے تھے۔ چونکہ وی سی آر کے ذریعے بھارتی فلمیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں۔ اس لئے اس زمانے میں ملک بھر میں مختلف خطبات میں مولویوں کو ‘وی سی آر کے خطرے’ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتاتھا کہ بھارتی ثقافتی یلغار روکنا امت مسلمہ کا فرض ہے اور یہ کہ وی سی آر لوگوں کو اسلام سے دور لے جا رہا ہے۔ ہمارے مولوی کا تو کیا ہی کہنا۔ سنتے ہیں کہ انگریز کی حکمرانی کے زمانے میں ہندوستان میں لاؤڈ اسپیكر آیا تھا۔ حسب روایت مولوی نے اس کی بھرپور مخالفت کی کہ کافروں کے بنائے ہوئے اس آلے میں شیطان بولتا ہے اور آج اس میں سب سے زیادہ مولوی بولتا ہے۔ بالآخر 1983 میں وی سی آر کی درآمد کو قانونی حیثیت دی گئی تو بہت سے لوگوں نے وی سی آر خریدا جو پہلے قانونی پابندیوں سے خوفزدہ تھے۔ تاہم ضیاء الحق کی حکومت نے قانون میں اس تبدیلی کی تشہیر نہیں کی۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ 80 کی دہائی کے وسط تک یہ ہی سمجھتے رہے کہ وی سی آر کی درآمد اور استعمال غیر قانونی ہے اور دس سال سے بھی کم عرصے میں وی سی ڈی کی آمد کے ساتھ ہی وی سی آر گھروں سے غائب ہو گئے۔
1964 میں جاپانی کمپنی سونی نے Nobutoshi Kihara کی قیادت میں ایک ٹیم تشکیل دی جس نے CV-2000 تیار کیا۔ یہ دنیا کا پہلا وی سی آر تھا جو گھریلو استعمال کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ ویڈیو پلیئر سائز اور قیمت دونوں کے لحاظ سے گھریلو استعمال کے لیے موزوں تھا اور تقریباً باون سال بعد 2016 میں اخباروں میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی، جس کے مطابق جاپانی ٹیکنالوجی کمپنی فونائی الیکڑک نے اعلان کیا کہ وہ جولائی کے آخر سے وی سی آر بنانا بند کر رہی ہے۔ یہ دنیا میں وی سی آر بنانے والی آخری کمپنی تھی۔
((انور اقبال))