پاکستان ریلویز نے کراچی کے شہریوں کو آمدورفت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے سن 1963ء میں "کراچی سرکلر ریلوے" کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ اس کی تعمیر کا تعلق بھی میرے بچپن کے سنہری زمانے سے ہے۔ جیسا کہ میں اپنی پچھلی تحریروں میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ میرا بچپن کراچی کے فیڈرل کیپیٹل ایریا میں گزرا تھا اور ہم اس کے آخری کنارے پر رہائش پذیر تھے۔ ایک صبح جب ہم سو کر اٹھے تو گھر کے باہر ہونے والی چہل پہل کی آوازوں نے ہمیں اپنی جانب متوجہ کیا اور ہم گھر کا بیرونی دروازہ کھول کر باہر گئے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا کہ بڑے بڑے ٹرک ریت اور مٹی سے لدے ہوئے قطار در قطار ہمارے گھر کے بہت ہی قریب کھڑے ہوئے ہیں اور بہت سے مزدور اُن ٹرکوں پر سے ریت اور مٹی باہر گرا کر ڈھیر کی صورت میں جمع کر رہے ہیں۔ ابھی میں یہ منظر دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے والد صاحب بھی باہر آگئے اور گرد وپیش کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے مجھے متوجہ کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصے بعد ہمارے گھر کے بالکل قریب سے ریل گزرا کرے گی۔ یہ کراچی سرکلر ریلوے سے میرا پہلا تعارف تھا۔
ہم نے کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیر کے تمام مراحل اپنی آنکھوں سے دیکھے اور وہ لمحہ بھی مجھے یاد ہے جب اس کی تکمیل کے آخری مرحلے میں مٹی کے لمبے پلیٹ فارم پر لوہے کی ریلوے لائن ڈالی گئی اور ان لائنوں پر باقاعدہ ریل کے چلنے سے پہلے ٹریک کو چیک کرنے کے لیے ریلوے انجینیئروں کی ٹرالیاں دوڑتی بھاگتی نظر آتی تھیں۔ دوران تعمیر ریلوے لائن میں چھوٹی چھوٹی خامیاں رہ جاتی ہیں اس لیے ابتدائی طور پر ان ریلوے لائنوں کا وقتاََ فوقتاً بصری معائنہ کیا جاتا ہے جس کو یہ ریلوے انجنیئرز "ٹرالیوں" پر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ معائنے کے دوران اگر کسی بھی قسم کا کوئی نقص نظر آتا ہے تو اسے دُور کرنے کی ہر ممکن کوشش بروئےکار لائی جاتی ہے۔ انجینئروں کی ان ٹرالیوں میں سے کچھ میں خودکار موٹر فٹ ہوتی تھی اور کچھ ٹرالیوں کو مزدور دوڑتے ہوئے پٹریوں پر دھکیلتے تھے۔ اس طرح مکمل چھان بین کے بعد ہی مسافر ریل کو نئی بنائی گئی پٹریوں پر سے گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
کراچی سرکلر ریلوے کا مرکزی ٹریک، ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتا ہوا سٹی ریلوے اسٹیشن پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔ شہریوں نے اس سروس کو بیحد پسند کیا، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے ہی سال کراچی سرکلر ریلوے کو 5 لاکھ کا منافع ہوا تھا۔
1970ء اور 1980ء کی دہائی میں جب کراچی سرکلر ریلوے عروج پر تھی تو روزانہ 104 ٹرینیں چلائی جاتی تھیں جن میں 80 مرکزی لائن جبکہ 24 لوپ لائن پر چلتی تھیں۔ لیکن افسوس کہ شہر کے ٹرانسپورٹرز کو "کراچی سرکلر ریلوے" کی ترقی ایک آنکھ نہ بھائی اور انھوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ریلوے ملازمین سے مل کر سازشیں شروع کر دیں۔ سن 1990ء کی ابتدا سے کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر معمول بن گئی۔ اس تاخیر کی وجہ سے عام شہریوں نے رفتہ رفتہ سرکلر ریلوے سے سفر کرنا چھوڑ دیا تھا۔ آخر کار سن 1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی زیادہ تر ٹرینیں خسارے کی بنا پر بند کر دی گئیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1994ء سے 1999ء تک لوپ لائن پر صرف ایک ٹرین چلتی تھی اور پھر 1999ء میں وہ ایک ٹرین بھی بند کر دی گئی۔ پھر کچھ سال بعد شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث سن 2005 میں ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ کے منصوبے کا بھی اعلان کیا گیا مگر اس پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔
گزشتہ کچھ برسوں سے کراچی سرکلر ریلوے کے پرانے ٹریک کو نئے سرے سے بحال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں شہر کے کچھ علاقوں میں "سرکلر ریلوے ٹریک" پر بننے والی کچی آبادیوں کو بھی مسمار کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ برس کچھ روٹس پر سرکلر ٹرینیں چلائی بھی گئی تھیں مگر اب ان کو دوبارہ سے بند کر دیا گیا ہے۔ شہر کے ٹریفک کا پہلے ہی برا حال ہے، سرکلر ریلوے کے ذریعے کچھ امید ہو چلی تھی کہ شاید اس کی وجہ سے شاہراہوں پر عوامی ٹریفک کے امڈتے ہوئے سیلاب میں کچھ کمی واقع ہو جائے گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ جانے کب یہ منصوبہ دوبارہ سے شہریوں کو سفر کی سہولیات فراہم کرے گا۔
کراچی سرکلر ریلوے سے ہماری بہت سی دلچسپ اور سنہری یادیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت مجھے وہ زمانہ یاد آرہا ہے جب سرکلر ریلوے کی ٹرینوں میں مسافروں کے لیے کچھ سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک سہولت یہ بھی تھی کہ مسافروں کے لیے ماہانہ پاس جاری کیا جاتا تھا جس کی قیمت محض پانچ روپے تھی اور ایک سفر کے ٹکٹ کی زیادہ سے زیادہ قیمت صرف پچیس پیسے تھی۔ میں اُن دنوں کو اب جب کبھی سوچتا ہوں تو دل بےقرار سا ہو جاتا ہے۔ ریل کی پٹری ہمارے گھر سے بمشکل دو ڈہائی سو فٹ کے فاصلے پر تھی۔ درمیان میں ایک حفاظتی دیوار بھی قائم کر دی گئی تھی اور جب کبھی ریل گزرتی تھی تو ہمارے گھر میں بڑی زور کی دھمک کی آواز آتی تھی۔
سرکلر ریلوے سروس کی ابتداء ہوتے ہی ہم لوگوں کو گویا ایک نئی تفریح ہاتھ آگئی۔ ہمارا گھر چونکہ سرکلر ریلوے کے درمیان میں واقع تھا اس لیے ہم باآسانی ڈرگ روڈ کی طرف بھی جا سکتے تھے اور ٹاور کی جانب بھی سفر کر سکتے تھے۔ اُن دنوں ہم عموماََ لیاقت آباد کے ریلوے اسٹیشن سے ریل پر سوار ہوتے تھے۔ دونوں جانب ایک، ایک مقام ایسا آتا تھا جو مجھے بہت دلچسپ لگتا تھا۔ جب ہم ڈرگ روڈ کی جانب سفر کرتے تھے تو یونیورسٹی کے اسٹیشن کے بعد چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس مقام پر ریلوے لائن دونوں اطراف کے پہاڑ کاٹ کر بچھائی گئی تھی۔ جب یہاں سے ریل گزرتی تھی تو ایسا لگتا تھا کہ ریل کے دونوں اطراف پہاڑی دیوار بھی ریل کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی ہے۔ ریلوے لائن کا یہ حصہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر مشتمل تھا جیسے کہ مشہور بھارتی فلم شعلے میں گھڑ سوار ڈاکو ریل پر حملہ کر دیتے ہیں تو اطراف کا جو منظر ہوتا ہے، ہو بہو ویسا ہی منظر یہاں کا بھی تھا۔ اسی سے ملتے جلتے مناظر انگریزی ویسٹرن کاؤ بوائیز فلموں میں بھی اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اگر اس ٹرین پر مخالف سمت میں ٹاور یا سٹی اسٹیشن کی جانب سفر کیا جاتا تو لیاقت آباد کے بعد نارتھ ناظم آباد کا اسٹیشن آتا تھا۔ دراصل نارتھ ناظم آباد کا اسٹیشن کھنڈو گوٹھ میں واقع تھا۔ یہ گوٹھ ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں تک اپنی اصل حالت میں برقرار تھا۔ اس گوٹھ کی آبادی کلمتی بلوچ قبیلے پر مشتمل تھی۔ جب اس گوٹھ کے اسٹیشن پر ٹرین رکتی تھی تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہم اندرونِ سندھ کے کسی دوردراز دیہات میں آگئے ہیں۔ وہاں کا منظر مجھے ابھی تک یاد ہے، عورتیں اپنے روایتی بلوچی لباس میں روزمرہ کے کاموں کی وجہ سے اِدھر اُدھر چل پھر رہی ہوتی تھیں، کوئی گائے کا دودھ دھو رہی ہے تو کچھ عورتیں گروپ کی صورت میں گائے کے گوبر کے اوپلے بنا رہی ہیں۔ مکانات کی بناوٹ اور طرز تعمیر نہایت سادہ تھی جو کہ مٹی اور گھاس پھوس سے بنائے گئے تھے۔ ان ہی سادہ مکانات کے عین وسط میں ایک پرانی طرز کی پکّی حویلی نما شاندار عمارت بھی موجود تھی۔ اُس شاندار عمارت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ اس علاقے کے کلمتی بلوچ سردار کی حویلی ہے جن کا نام مستی بروہی خان تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی صاحب تھے جن سے "کے ڈی اے" نے 1950 کی دہائی میں نارتھ ناظم آباد کو بسانے کے لیے بیشتر زمین خریدی تھی۔ ریلوے لائن کا پہاڑی سلسلہ ڈپو ہِل جنکشن پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ یہ ڈپو ہِل جنکشن دراصل موجودہ راشد منہاس روڈ پر واقع سی-او-ڈی (سینٹرل آرڈیننس ڈپو) کے بالکل عقب میں واقع تھا۔ اس جانب ہمارے سفر کا اختتام ڈرگ کالونی جنکشن پر ہوتا تھا۔ یہاں سرکلر ریل پلیٹ فارم پر آکر رُکتی تھی اور اس کے سامنے ہی شمع سینما نظر آتا تھا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ اتوار کے دن ہمارے والد صاحب ہم سب کو کوئی نہ کوئی نئی ریلیز ہونے والی فلم دکھانے کے لیے ریل میں بٹھا کر شمع سینما کا رُخ کرتے۔ ہم عموماً دن تین بجے کے قریب ریل کے ذریعے ڈرگ روڈ جنکشن پہنچ جاتے اور شمع سینما کی اسکرین پر میٹنی شو دیکنے کے بعد شام چھ بجے کی ریل سے واپس گھر روانہ ہو جاتے تھے۔ اس سینما میں ہم نے اپنے والد صاحب کے ساتھ بہت سی فلمیں دیکھیں تھیں۔ اس وقت میں بطورِ خاص ریاض شاہد کی ناقابلِ فراموش فلم "زرقا" کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ فلم "زرقا" فلسطین کی جدوجہد آزادی پر مبنی تھی۔ یہ ایک کامیاب فلم تھی اور اس کی کامیابی میں حبیب جالب کے تخلیق کیے ہوئے لازوال گیتوں کا بھی کمال تھا۔ میری عمر کے بہت سے لوگوں کو اس فلم کا وہ گیت ابھی تک زبانی یاد ہے، جس کا مُکھڑا تھا؛
"رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے!"
ان دنوں میں جب بھی اس گیت کی ویڈیو اپنے موبائل کی اسکرین پر دیکھتا ہوں تو مجھے شمع سینما کی بڑی اسکرین یاد آجاتی ہے۔۔۔ نظروں کے سامنے وہ تمام مناظر کسی فلم کی مانند گھوم جاتے ہیں۔۔۔ اور مجھے بےساختہ اپنے مرحوم والد صاحب کی یاد ستانے لگتی ہے۔
بچپن میں ہمیں کتّے پالنے کا بہت شوق تھا۔ جب بھی ہم گھر میں کوئی کتّا پالتے تو نام رکھنے کا فریضہ ہمارے والد صاحب ہی سرانجام دیتے تھے۔ ایک بار اُن ہی کے ایک دوست نے "تازی نسل" کے کتّے کا بچہ بطور تحفہ ہمیں دیا۔ والد صاحب نے اُس کا نام "رُستم" رکھ دیا اور پھر ہم سب اسے "رُستم" کے نام سے ہی پکارنے لگے۔ وہ سیاه اور سفید رنگ کا نہایت خوبصورت کتّے کا بچہ تھا۔ ایک سال میں ہی وہ مزید خوبصورت اور تندومند ہو گیا تھا لیکن پھر پتہ نہیں اُس کو کیا ہوا کہ اس نے وقتاً فوقتاً محلّے کے بچوں اور بڑوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ ہماری امّی کتّے کے اس عمل سے بہت ناراض رہنے لگیں تھیں چنانچہ ایک دن انہوں نے تنگ آکر ہم دونوں بھائیوں کو کہا کہ اسے کہیں دُور چھوڑ آؤ کہ یہ پھر یہاں پر واپس نہ آسکے۔ ہم نے امّی کا حکم بجا لانے کے لیے کافی غوروفکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اگر رُستم کو سرکلر ریل کے ذریعے اپنے علاقے سے کئی میل کی دوری پر "وزیر مینشن" کے اسٹیشن پر چھوڑ دیا جائے تو وہ پھر واپس ہمارے گھر نہیں آسکے گا، اتنا طویل فاصلہ طے کرنا رُستم کے لیے ناممکن ہے۔ یہی بات سوچ کر میں اپنے بھائی کے ساتھ "رُستم" کو لے کر گھر سے نکلا اور سرکلر ریل کے ذریعے اُسے "وزیر مینشن اسٹیشن" پر چھوڑ کر فوراً ہی گھر واپسی کی مطلوبہ ریل میں سوار ہو گیا۔ دورانِ سفر ریل میں بیٹھے ہوئے ہم دونوں بھائی "رُستم" کے لیے کچھ فکر مند اور اداس بھی تھے کہ ہم نے اُس بیچارے کو تنہا انجان اسٹیشن پر چھوڑ دیا ہے اور اب کبھی اُس سے نہیں مل سکیں گے۔۔۔ تقریباً تین، ساڈھے تین گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد جب ہم گھر پہنچے تو امّی سخت غصے میں تھیں اور انہوں نے ہم دونوں بھائیوں سے پوچھا کہ اتنی دیر سے کہاں تھے تم دونوں۔۔۔؟ ہم نے امّی کو بتایا کہ ریل میں بیٹھ کر رستم کو "وزیر مینشن اسٹیشن" پر چھوڑنے گئے تھے اور اُس کو وہاں چھوڑ کر فوراً ہی دوسری ریل میں بیٹھ کر اب گھر پہنچے ہیں۔۔۔ امّی نے ہماری بات سن کر کہا کہ ہاں چھوڑ آئے تم دونوں "رستم" کو "وزیر مینشن اسٹیشن"… وہ دیکھو ذرا۔۔۔ انہوں نے ہمیں اشارے سے رستم کی جانب متوجہ کیا جو اندر کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ امّی نے ہمیں بتایا کہ رستم آدھے گھنٹے پہلے ہی گھر واپس آیا ہے۔ اُس لمحے "رستم" کو دوبارہ سے گھر کے اندر دیکھ کر ہم دونوں بھائی حیرت میں ڈوب گئے تھے۔ شام کو جب والد صاحب دفتر سے واپس گھر آئے تو امّی نے "رستم" کا واقعہ انہیں سنایا۔ وہ اس واقعے کو سن کر مسکرا دیے۔ دوسرے دن معمول کے مطابق ہم صبح سویرے اسکول چلے گئے اور چھٹی کے وقت جب واپس گھر پہنچے تو "رستم" موجود نہیں تھا۔ امّی سے جب ہم نے "رستم" کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ تم لوگوں کے اسکول جانے کے بعد تمہارے والد صاحب کے دوست آئے تھے اور وہ "رستم" کو ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
ریلوے لائن چونکہ ہمارے گھر کے بالکل برابر سے گزرتی تھی اور ہمارا گھر باقی فیڈرل کیپیٹل ایریا سے کٹ گیا تھا۔ اس لیے ہمارے گھر کے پاس ہی باقی آبادی سے آمدورفت کے لیے ایک ریلوے کراسنگ بھی بنائی گئی تھی۔ اس ریلوے کراسنگ پر ایک گیٹ بھی لگایا گیا اور وہاں پر ریلوے کی جانب سے ایک آدمی بھی متعین کر دیا گیا تھا جو "ریل گاڑیوں" کی آمدورفت کے دوران گیٹ بند کرنے اور کھولنے پر مامور تھا۔ اس گیٹ کے دونوں جانب ایک بورڈ بھی لگا ہوا تھا، جس پر یہ عبارت درج تھی؛
"پھاٹک دیر سے کُھلنے کی شکایت درج کرنے کے لیے 'کتاب' پھاٹک والے کے پاس ہے"
ہم سوچتے تھے یہ تو ہم شہریوں کو خوش کرنے کے لیے بلاوجہ ان لوگوں نے چھوٹا سا بورڈ آویزاں کر دیا ہے، بھلا جب پھاٹک والا خود ہی کچھ سُستی کرے گا تو وہ ہمیں کیونکر شکایت درج کرنے کے لیے یہ کتاب دے گا۔۔۔!!
اس تحریر میں شامل "اشتہار" کی تصویر کراچی کے اردو روزنامہ جنگ میں جولائی 1963 کی اشاعت سے لی گئی ہے۔
"