سانحہ سیالکوٹ میں ایک جنونی گروپ کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارنے والے سری لنکن شہری پرانتھا کمارا کی المناک موت کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس کیس کا فیصلہ کردیا اور پرانتھا کمارا کے قتل میں ملوث چھ مجرمان کو سزائے موت، سات مجرمان کو عمر قید اور 76 مجرموں کو دو دو سال قید کی سزا سنا کر انصاف کے تقاضے پورے کردئیے۔عدالتیں سرخرو ہوئیں نظام عدل برتر ٹھہرا اور قانون کی حکمرانی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئی ۔بلاشبہ انصاف کرنے سے ہی معاشرے پروان چڑھتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ سانحہ سیالکوٹ کی طرح سانحہ ماڈل ٹاون اور سانحہ ساہیوال کے مجرمان کو بھی قانون کے کٹہرے میں لاکر انصاف کے تقاضے جلد پورے کیئے جاتے ۔امید ہے کہ پرانتھا کمارا کی طرح ان مظلوموں کو بھی جلد انصاف ملے گا ۔ہمیں اپنے نظام عدل پر یقین کامل ہے دیر سے سہی مگر ملے گا ضرور۔
اسی انصاف کے حصول کے لیئے اور قانون کی حکمرانی کے لیے تو عمران خان نے تحریک شروع کی تھی اور اس کا نام بھی انصاف رکھا ۔ انصاف کی جلد فراہمی کے دعوے دار میرے کپتان نے نجانے کیوں فارن فنڈنگ کیس کو سات سال تک لٹکائے رکھا ۔خدا جانے کہ رنگ روڈ ، آٹا اسکینڈل ، چینی اسکینڈل ، ادویات اسکینڈل سمیت توشہ خانہ کی تفصیلات جاری نا کرنے دینا اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا کس کی سازش تھی۔وگرنہ کپتان تو ایسا نہیں تھا اور اب بھی امید ہے کہ کپتان جس کی سیاسی جدوجہد کا نام ہی تحریک انصاف ہے فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت کا خندہ پیشانی سے سامنا کرے گا تاکہ جلد سے جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
رہی بات جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا وہ ناصرف قابل مذمت ہے بلکہ قابل شرمندگی بھی ہے ۔ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ چوہدری جیسے وضح دار سیاست دان کس کے کہنے پر اکثریت کھوجانے کے باوجود بھی وزارت اعلیٰ کی کوشش کررہے تھے ۔اور اسمبلی ہال کے اندر جو کچھ ہوا کس کے کہنے پر ہوا اور کیوں ہوا۔کہاں گئیں اخلاقی قدریں اور پارلیمانی روایات جو چوہدریوں کی سیاست کا طرہ امتیار رہیں ۔بہت بے آبرو ہوکہ کوچہ سیاست سے رخصت ہوئے ۔دکھ ہوا بہت زیادہ دکھ ہوا مگر کیا کرسکتے ہٰیں یہ اقتدار کا کھیل ہی ایسا ہے جس میں سر سلامت نہیں رہتے اور اس بار تو عزت سادات بھی گئی ۔
یہی نہیں بلکہ اس سے قبل وفاق میں بھی یہی کچھ ہوا۔کپتان چاہتا تو اقتدار کو ٹھوکر مار کر ثابت کرتا کہ اقتداراس کے لیئے معنی نہیں رکھتا۔مگر جس انداز میں وفاقی حکومت کا خاتمہ ہوا وہ کسی بھی لحاظ سے قابل تعریف نہیں ہے۔رہی سہی کسر ان کہانیوں نے پوری کردی جن کی صداقت پر متضاد آرا موجود ہیں ۔ سیاسی محاز آرائی کے سبب ملک ہیجان میں مبتلا ہوگیا ، جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ، دنیا بھر میں تماشہ بنا ، آئین پر عمل درامد کے لیے رات گئے عدالتوں کو کھولا گیاتب کہیں جاکر آئینی اور قانون تقاضے پورے ہوسکے ۔سوال اب بھی یہی ہے کہ اس سارے عمل سے کیا حاصل ہوا ؟
جو ہوا سو ہوا شائد اب سیاست اسی انداز سے ہوگی۔تاہم فی الوقت کپتان اپنے بہترین طریقہ سیاست کی طرف لوٹ آئے ہیں بہترین اس لیئے کہ اپوزیشن میں پرفارمنس نہیں دینی ہوتی ڈلیور نہیں کرنا ہوتا بس تقاریر کرنی ہوتی ہیں عوام کے جذبات سے کھیلنا ہوتا ہے تنقید کرنی ہوتی ہے ۔پشاور ، کراچی کے بعد لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے جارہے ہیں ۔کپتان کی تقاریر میں جہاں خود کو انقلابی لیڈر کے طورپر پیش کررہے ہیں وہاں پر اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کررہے ہیں ۔کپتان کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر لگایا تو نوازشریف کو باہر بھیجنا غلطی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھی غلطی تھی اور عثمان بزدار کو ہٹانا بھی غلطی تھی ۔کپتان کے مطابق ڈالر کا اوپر جانا اور مہنگائی میں اضافہ بھی غلطی تھی ۔اب کون پوچھے کہ خان صاحب اتنی غلطیوں کے بعد کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ غلطی پر غلطی کرتی حکومت کے خلاف کوئی سازش کرئے ۔
کپتان کے سڑکوں پر آنے کے بعد شہباز کی پرواز شروع ہوچکی ہے ۔حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت وفاقی کابینہ کی تشکیل پر مشاورت مکمل ہوچکی اور کسی بھی وقت کابینہ حلف اٹھالے گی ۔شہباز سرکار جس میں کم وبیش تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں کو معاشی اصلاحات کے حوالے سے ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے دیکھنا ہوگا کہ شہبازشریف اور ان کی ٹیم کیسے اس صورتحال سے نکلتے ہیں ۔تاہم ایک امید ہے کہ جیسی بھی ہو یہ سرکار کم سے کم تبدیلی سرکار سے بہتر ہی ہوگی۔لیکن اس وقت بہتر کافی نہیں بہت بہتر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عام آدمی کی زندگی بہت مشکل ہوچکی ہے ۔اس کو ریلیف دینا بہت ضروری ہے
شہباز سرکار کتنے دن چلتی ہے اس بات کا انحصار اتحادیوں کے صبروتحمل اور فہم وفراست سے مشروط ہے ۔اس کے لیے بہت کچھ درگذرکرنا ہوگا بہت کچھ برداشت کرنا ہوگا۔حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کو اپنی زات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم کے متعلق سوچنا ہوگا تب یہ سرکا رچل پائے گی وگرنہ بہت مشکل ہے ۔ جہاں تک نئے عام انتخابات کی بات ہے تو یہ اس سال کے آخر تک وگرنہ آئندہ سال ضرور منعقد ہونے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا کپتان دوبارہ حکومت بنانے کے لیئے مطلوبہ نشستیں جیت پائے گا اور دوسرا سوال یہ کہ کیا موجودہ حکومتی اتحاد آئندہ مشترکہ انتخابی اتحاد بھی بنا سکتا ہے ۔پہلے سوال کا جواب تو عوام کے پاس ہے کہ وہ کس کو مینڈیٹ دیتی ہے اور دوسرے سوال کا جواب ہے کہ حکومت میں شامل جماعتوں کو انتخابی اتحاد بنانا چاہیے تاکہ آئندہ بھی برسراقتدار آکر ملک کی بدحال معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے مشترکہ کوشش اور جدوجہد کی جائے ۔وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک وقوم کی بہتری کے لیئے جدوجہد اور کوشش کریں۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...