(Last Updated On: )
کہتے ہیں کہ ایک بار ایک غریب گھرانے کے نوجوان کو گاوں کے چوہدری کی بیٹی سے پیار ہوگیا ۔وہ پیار میں اس قدر محو ہوا کہ اس کو زمینی حقائق ہی بھول گئے کہ وہ جس گاوں میں محنت مزدوری کرکے پیٹ پالتا ہے وہ لڑکی اس گاوں کے چوہدری کی بیٹٰی ہے۔ خیر ایک دن وہ ہمت کرکے چوہدری کے پاس چلا ہی گیا ۔چوہدری نے آنے کی وجہ پوچھی تو اس نوجوان نے کہا کہ چوہدری صاحب میں آپ کی بیٹٰی سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔یہ سننا تھا کہ چوہدری آپے سے باہر ہوگیا اس نے ملازموں کو آواز دے کر بلایا اور حکم دیا کہ اس گستاخ کو سبق سکھائیں ۔کہتے ہیں کہ چوہدری کے ملازموں نے اس ناعاقبت اندیش نوجوان کی ایسے دھلائی کی جیسے کے پی کے کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کی ہوئی ہے۔بالآخر جب مار پیٹ کا سلسلہ رکا تو وہ نوجوان کھڑا ہوا اور کپڑےجھاڑتے ہوئےچوہدری سے مخاطب ہوا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اب انکار سمجھوں۔
پہلے مرحلے میں 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔وزیراعظم کا دعویٰ تھا کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے اور جناب وزیراعظم کی جماعت دنیا کے سستے ترین ملک کے ایک صوبے میں جہاں کم وبیش گزشتہ 9 سال سے ان کی حکومت ہے مہنگائی کی وجہ سے ہار گئی ۔غیر حتمی نتائج کے مطابق جمعیت علمائے اسلام (ف) نے دو میئرز سمیت 21 تحصیل چیئرمن کی نشستیں جیت لیں۔کوہاٹ سمیت صوبے کا مرکز اور تحریک انصاف کا مضبوط گڑھ پشاور جے یو آئی نے جیت لیا اور یہ نتیجہ حکمران جماعت کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا اور ستم یہ کہ شکست بھی مولانا کے امیدوار سے کھائی۔پہلے مرحلے میں جے یو آئی نے 21،تحریک انصاف نے 14 ، 9 نشستوں پر آزاد امیدوار ،7پر اے این پی ، 3 نشستوں پر ن لیگ ،2 پر جماعت اسلامی اور ایک نشست پر پاکستان پیپلزپارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا۔
خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 17اضلاع میں الیکشن ہوئے جس میں شکست تسلیم کرتے ہوئےوزیراعظم نے کہا کہ امیدواروں کے غلط انتخاب کی وجہ سے ہارے ہیں ۔اب دوسرے مرحلے کی میں خود نگرانی کروں گا۔مطلب شکست تسلیم کرلی مگر وجوہات کا تعین پھر بھی غلط کیا ۔پارٹی کے ہنگامی اجلاس میں حکومتی وزرا اور مشیر کہتےرہے کہ بدترین مہنگائی کی وجہ سے ہارے ہیں مگر کپتان بضد تھےکہ نہیں غلط امیدواروں کو ٹکٹ دئیے ہیں۔زمینی حقائق سے نظریں چراتےہوئے فی الوقت حالت یہ ہےکہ حکمران جماعت کے اکابرین اور قائدین بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی تیاری کے لیے پہلے مرحلے میں ہونے والی درگت کے بعد کپڑے جھاڑ رہے ہیں ۔مگر کون سمجھائے کہ دوسری بار اس سے بھی برا ہونے والا ہے ۔
بلکہ دوسرے مرحلے کی درست عکاسی منیر نیازی کے اس شعر سے ہوتی ہے کہ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو ، میں ایک دریا کے پار اترا تومیں نے دیکھا ۔ حکومتی کارکردگی کے غٰیر مطمئن اور ہمالیہ کو چھوتی مہنگائی کے بعد بدترین طرز حکمرانی کا سیاسی دریا 16 جنوری کو درپیش ہوگا جب بقیہ ماندہ 18 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے ۔اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان اضلاع میں ن لیگ اور جے یو آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں کی پوزیشن کافی بہتر ہے لہذا توقع کی جارہی ہے کہ یہاں پر حکمران جماعت تحریک انصاف کو یہاں سے زیادہ کامیابی ملنا ممکن نہیں ہے ۔اگر وزیراعظم کے نوٹس لینے کے بعد اور بلدیاتی انتخابات کی نگرانی کے باوجود تحریک انصاف نہیں جیت پاتی تو پھر کیا ہوگا۔کیا اس وقت کپتان یہ تسلیم کرلیں گے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک نہیں رہا۔کیا وہ اس بات کا برملا اظہار کریں گے کہ شکت کی وجہ امیدواروں کا انتخاب نہیں بلکہ بدترین مہنگائی ہے۔
بارہا لکھا ہے اور متعدد بار کہا ہے کہ حکمرانی کا مزاج ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے ۔بوئے سلطانی جب سرمیں سماتی ہے تو کچھ نہیں سوجھتا نا ہی سمجھ آتا ہے ۔ایک عادت بن جاتی ہے کہ جو کہا ہے وہی حرف آخر ہے جو بولا ہے وہی سچ ہے ۔کیا لنگر خانے کھولنے سے اور پناہ گاہیں تعمیر کرنے سے ترقی ہوتی ہے۔مڈل کلاس جو ملک کی سب سے بڑٰی آبادی ہے اس مہنگائی میں پس کررہ گئی ہے ۔کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اس مڈل کلاس کی بہتری کے لیے کچھ کیا جائے ۔یہی مڈل کلاس خوش حال ہوگی تو لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقہ کی حالت بھی بہتر ہونے لگ جائے گی ۔خالی پیٹ بھوکے کو کھانا کھلایا جاتا ہے نا کہ اس کے سامنے مذہبی گفتگو شروع کردی جائے ۔اور کپتان ہے کہ دن رات بھاشن پر بھاشن دے رہا ہے ۔اصل مدعا کی طرف کیوں نہیں آتا مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کا روڈ میپ کیون نہیں دیتا۔
جب تک عوام کے حقیقی مسائل کو حل نہیں کیا جائے گا یا اس طرف کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک ہر اقدام چاہے وہ اربوں درخت ہوں ، پناہ گاہیں ہوں یا پھر لنگر خانے ہوں سب بے سود اور بے معنی ہے ۔اسی روش اور اسی بیانیے کے ساتھ حکمران چلتے رہے تو کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ہو یا پھر پنجاب کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا پھر آئندہ عام انتخابات ہوں تحریک انصاف کی بدترین شکست نوشتہ دیوار ہے ۔لکھ کر رکھ لیں کہ کارکرگی دکھانے کا وقت گذر چکا بقیہ ماندہ مدت میں سوائے قرض لینے کے کپتان کچھ نہیں کرسکے گا۔مہنگائی ، بے روزگاری کے بوجھ تلے سسکتی عوام کا ردعمل عام انتخابات میں اس سے بھی زیادہ شدید ہوگا۔اس پرفارمنس کے بعد طے ہوگیا ہےکہ کوئی غیبی ہاتھ 2018 کے عام انتخابات کی طرح کپتان کی مدد نہیں کرسکے گا۔اور پھروہ سب کچھ کاٹنا پڑے گا جو ان پانچ سالوں میں بویا ہے۔اور فصل چاہے جیسی بھی ہو یہ طے شدہ امر ہے کہ اپنی بوئی ہوئی فصل کو کسان خود ہی کاٹتا ہے