(Last Updated On: )
اے عدم احتیاط لوگوں سے ، لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں۔واقعی ہی لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں ابھی کل ہی کوئی کہہ رہا تھا کہ ریحام خان بڑی خوش قسمت خاتون ہے سن کر حیرت میں پڑ گیا کہ خوش قسمت کیسے ؟ استفسار پر جواب ملا کہ وقت پرخان سے جان چھڑا گئی اور ہمیں مزید دوسال عذاب بھگتنا ہے۔دل میں سراہا کہ بات تو ٹھیک ہے مگر طنزیہ لہجے میں کہا کہ تم لوگوں کو بھی بڑے زور کی تبدیلی آئی ہوئی تھی اوپر سے کچھ محسنوں نے تبدیلی کے لیئے زور بھی بڑا لگایا تب جاکر قمیض میں دو موریوں والا شاہکار تخلیق ہوا۔جس نے مستقبل کی یونیورسٹی وزیراعظم ہاوس کی بھینسیں اور کٹےفروخت کرکےعوام کوکٹے اور ککڑیاں پالنے کا مشورہ دے دیا۔
خیر جو ہوا سو ہوا بات ریحام خان کی خوش قسمتی کی ہورہی ہے تو ریحام خان نے ہی چھ ماہ قبل بتا دیا تھا کہ عمران پراجیکٹ ناکام ہوچکا ہے۔اس وقت میں نے بھی سوچا کہ یہ بیان سوائے حسد اور جلن کے کچھ نہیں ہے۔مگر جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے لگتا ہے ریحام خان کی بات ٹھیک تھی ۔یہ بڑی اندر کی خبر تھی جو ریحام خان نے بریک کی تھی۔اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ لندن میں درپردہ مذاکرات جاری ہیں اور مریم بی بی خاموش ہیں۔ان کی خاموشی کا مطلب ہے کہ فی الوقت سب ٹھیک جارہا ہے۔شہباز کی پرواز جاری ہے ۔پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو کامیابی ملی اپنا بل پیش کردیا اور حکومت بل پیش نہیں کرنے دیا۔ایک ہی دن میں دو بار ایوان میں ووٹنگ ہوئی اور حکومت دونوں بارہارگئی۔
خفت مٹانے کے لیئے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلانے کا اعلان ہوا۔مقصد الیکٹرانک ووٹنگ پر قانون سازی ککرنا تھی مگر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق نے الیکٹرانک ووٹنگ پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا۔بالآخر حکومت کو مشترکہ اجلاس منسوخ کرنا پڑا۔اس منسوخی کےاعلان پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ٹوئیٹ کیا کہ کپتان بھاگ گیا۔کپتان اجلاس سے تو بھاگ گیا مگر حکومت سےنہیں بھاگ پا رہا۔جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو لوگ چھلانگیں لگانا شروع کردیتے ہیں ۔سب سے پہلے تو تبدیلی کا راگ الاپنے والے ارشاد بھٹی ، ہارون رشید اور کامران خان نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ کھڑے کردئیے کہ خان صاحب 60 ماہ میں سے 40 ماہ گذر چکے ہیں اگر کچھ کرسکتے ہیں تو آئندہ 20 ماہ میں کچھ کرلیں ورنہ بھاری دل سے خدا حافظ۔
المیہ یہ نہیں کہ کپتان کچھ کرنہیں سکا عوام کو ڈلیور نہیں کرسکا المیہ تو یہ ہے کہ اب بھی کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ کچھ کرئے گا۔اب کون سمجھائے کہ بندہ خدا ڈالر کو چھوڑو غیر ملکی کرنسی ہے پٹرول کو چھوڑو باہر سے خریدتے ہیں جو شخص اپنے ملک کی پیداوار چینی اور آٹے کے نرخ کنٹرول نہیں کرسکا وہ کیا تبدیلی لائے گا۔گنجی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی یہی کچھ برسراقتدار سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ہوا ہے۔نااہل لوگوں کی ٹٰیم،پلاننگ کا فقدان،زمینی حقائق سے نابلد،معاشی پالیسیوں سےبے بہرہ ،جس کے اتحادی پریشان اور وزیر نالاں ہوں ایسی حکومت سے خیر کی توقع کرنا خود کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔خیر جو دھوکے میں رہنا چاہے تو اس کا کیا کرسکتے ہیں ۔
دھوکہ تو جام نے کھایا اور اب بزنجو سرکار کے19وزیر حلف بھی اٹھا چکے ہیں۔کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پنجاب سمیت سینیٹ ، قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ میں کسی ایک جگہ تبدیلی لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔اب دیکھئے قرعہ کس کے نام کا نکلتا ہے۔پی ڈی ایم اورپیپلزپارٹی میں بڑھتی ہوئی قربتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ کچھ نا کچھ ہونے والا ہے۔بلوچستان سے شروع ہونے والی تبدیلی لگتا ہے 20 نومبر کو ہونے والی تبدیلی کے بعد مزید تیز ہوجائے گی۔اپوزیشن شائد نومبر کے آخر میں اسٹیبلشمنٹ کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم نے ملک بھر میں مہنگائ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اس کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ ہوگا۔مولانا کی بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کافی اہم ہے۔انتخابی اصلاحات سے متعلق مولانا کا موقف ہے کہ ناجائز حکومت انتخابی اصلاحات کیسے کرسکتی ہے۔طے ہوگیا کہ پے درپے حکومتی مہرے پٹ رہے ہیں۔اے پی ایس کے مقدمے میں وزیراعظم کی طلبی اور زمہ داروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ حکومت کے گلے میں وہ ہڈی ہے جسے ناتو وہ نگل سکتے ہیں اور ناہی اگل سکتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ٹی ایل پی سے ہونےوالا معاہدہ بھی نا نگل سکتے ہیں اور نا ہی اگل سکتے ہیں۔آئی ایم ایف سے کیئے گئے معاہدوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔بدترین مہنگائی کے ساتھ ساتھ گیس کی تین مخصوص وقت میں فراہمی کے اعلان کا خیر مقدم نہیں کیا گیا۔اس ماہ کے آخر میں تیل اور بجلی کے نرخ مزید بڑھانے کی اطلاعات ہیں۔اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ کابینہ میں ردوبدل ہونے جارہا ہے ۔دو اہم وزیروں سے قلمدان واپس لیےجارہے ہیں یا تبدیل کیئے جارہے ہیں۔مطلب پورس کے ہاتھی نے اپنا رخ اپنے حمایتیوں کی طرف کرلیا ہے اب کون کون روندا جاتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔
حاکم وقت کے محل پرمایوسی چھائی ہوئی ہے جبکہ دارالخلافہ میں چہ میگوئیاں زوروں پر ہیں ۔کچھ ہوتا ہے تو خلق خدا کچھ کہتی ہے ۔بری طرز حکمرانی کے سبب اتحادیوں کے گلے شکوئے اور مخالفین کے طنز نے گویا سورج سرپر لاکھڑا کیا ہے۔وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔اپنی ناعاقبت اندیشی سے پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات نے امیر شہر کے محل کا جیسے محاصرہ کرلیا ہو۔کیفیت کچھ یوں ہے کہ غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر، محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے ۔کیوں نا ہو یہ کیفیت جب کپتان کا ہارون رشید جیسا حمایتی یہ لکھے کہ عمران خان کی ناکامی اظہر من الشمس ہے۔
تحریر:ملک سراج احمد